Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا تقریر کا دورانیہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی تھی؟

ماہرین کےمطابق عمران خان کی تقریر کا طویل دورانیہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب پاکستان اور انڈیا میں مقامی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا  پر بھی زیر بحث ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب پر انڈین ذرائع ابلاغ پاکستانی وزیراعظم کے خطاب کے مختلف پہلووں پر جہاں تنقید کررہا ہے وہیں وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے دورانیہ کو بھی حدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا دورانیہ 50 منٹ سے زائد رہا جس میں انہوں نے اپنے تقریر کے بڑے حصے میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کی اور انڈین حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انڈین میڈیا نے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے دورانیہ پر تبصرہ کیا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنا خطاب 17 منٹ تک محدود رکھا اور دیے گئے وقت کی پابندی کی جبکہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے مقررہ وقت سے تجاوز کرتے ہوئے خطاب جاری رکھا اور انڈیا پر تنقید کرتے رہے۔
واضح ریے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کے لیے مقررین کو 20 سے 25  منٹ کا وقت دیا جاتا ہے اور ماضی میں پاکستان کے وزرائے اعظم جن میں شاہد خاقان عباسی ، نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنا خطاب مقررہ وقت میں ختم کیا ہے۔

انڈین میڈیا عمران خان کی لمبی تقریر کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز نے ماہرین سے بات کر کے جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا وزیراعظم کی تقریر کے طویل دورانیے سے سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا یہ معمول کی بات ہے؟
پاکستان میں دفتر خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے ضابطہ کار کے مطابق کسی بھی رہنما کے خطاب کے دورانیے کی حد متعین کی جاتی ہے لیکن اس پر من و عن عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں بعض رہنماوں نے ایک ایک گھنٹے سے زیادہ کے خطاب کیے ہیں۔‘ ماضی میں جو تقاریر ہوتی رہی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ہی وزیراعظم عمران خان نے طویل تقریر کی ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اگر کسی رہنما کے پاس دنیا کو بتانے کے لیے کچھ ہو تو اسے روکا نہیں جاتا۔
کیا یہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے؟
سابق سفیر شمشاد احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کا ایک دورانیہ ضرور مقرر ہوتا ہے لیکن اس سے تجاوز کرنا سفارتی آداب کے خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا۔’جن حکمرانوں کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہوتا ہے وہ اپنی بات دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے روایتی حکمران اپنی تقریر مقررہ حد میں ختم کر دیتے ہیں کینوکہ ان کے پاس بولنے کے لیے ہی کچھ نہیں ہوتا۔ جن لوگوں نے بات کرنی ہوتی ہے مثلا امریکہ ، ایران اور کیوبا کے صدر نے ماضی میں وقت کو خاطر میں نہیں لایا اور اپنا مکمل پیغام دنیا کو پہنچایا ہے۔‘
شمشاد احمد کے مطابق اقوام متحدہ کا کوئی قانون ایسا نہیں کہ کوئی حکمران خطاب کر رہا ہو اور اسے روکا جائے۔

کیا اقوام متحدہ میں ایسا کوئی قانون ہے کہ جس کے تحت آپ کو مقررہ وقت میں خطاب ختم کرنا ہوتا ہے؟ فوٹو: اے ایف پی

سابق سفیر ضمیر اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ اگر وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کسی رولز کی خلاف ورزی کی ہوتی تو جنرل اسمبلی کے صدر ان کو خطاب کرنے سے روک دیتے۔ ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ مقررہ وقت میں ہی آپ کو اپنا خطاب مکمل کرنا ہے۔
ماضی میں کون سے حکمران نے اقوام متحدہ میں طویل ترین خطاب کیے؟
اقوام متحدہ کی لائبریری کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے طویل ترین خطاب کیوبا کے وزیراعظم فیڈل کاسترو نے کیا ہے۔ کیوبن وزیراعظم نے 26 ستبر 1960 کو خطاب کا کیا جس کا دورانیہ 269 منٹ رہا۔
افریقن ملک گنی کے صدر نے 10 اکتوبر 1960 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 144 منٹس کا خطاب کیا۔
انڈونیشیا کے پہلے صدر ڈاکٹر سیکارنو نے 30 ستمبر 1960 کو 121 منٹس کے دورانیے کا خطاب کیا۔
23 ستمبر 2009 کو لبیا کے رہنما کرنل قدافی نے 96 منت کا خطاب کیا تھا۔

کیا عمران خان کی تقریر سے کشمیر کی صورتحال پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے؟ فوٹو: اے ایف پی

وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے فوری طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا‘
سابق سفیر ضمیر اکرم نے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تقریر تو عمدہ تھی لیکن فوری طور پر اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ ’انڈیا کے حامی ممالک جب تک انڈیا کے اوپر کشمیر کے مسئلہ حل کرنے پر دباو نہیں ڈالیں گے اس وقت یہ معاملہ حل نہیں ہوگا لیکن یہ ایک اہم قدم ہے جس سے کشمیر کے مسئلہ کو دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔
سابق سفیر نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، اس خطاب سے یقینی طور پر اقوام متحدہ کی حد تک کشمیر کا معاملہ ایک بار پھر سے زندہ ہو چکا ہے۔ ’اس مسئلہ کو حل ہوتے ہوئے وقت لگے گا لیکن وزیراعظم پاکستان نے ایک پہلا اور اہم قدم ضرور لیا ہے۔‘
سابق سفیر شمشاد احمد کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کا خطاب ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ’پوری دنیا پاکستان کے وزیراعظم کے خطاب کو سنجیدگی سے لے رہی اور نریندر مودی کا جو ماضی ہے اس کو دنیا کو سامنے لے آئے ہیں۔‘

شیئر: