Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مسیحیوں اور مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے‘

راجیشور سنگھ کے بیان پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہو رہی ہے۔
سخت گیر ہندو جماعت سے منسلک ایک اہم لیڈر کی جانب سے ایک بار پھر متازع بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ 2021 تک انڈیا سے مسلمانوں اور مسیحیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سخت گیر ہندو جماعت آر ایس ایس کی ایک شاخ 'دھرم جاگرن سمنوے سمیتی' کے سابق کنوینر راجیشور سنگھ نے حال ہی میں اپنے متنازع بیان کو پھر سے دہرایا ہے اور کہا ہے کہ 'یہ ہمارا عہد ہے کہ 31 دسمبر 2021 تک ہم اور ہمارے ساتھی اس ملک سے مسلمانوں اور مسیحیوں کا خاتمہ کر دیں گے۔۔۔ سب کو ہندو بنا دیں گے۔'
ان کے اس بیان کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر 'مسلم' اور 'کرسچن' ٹرینڈ کرنے لگا ہے۔
انڈیا میں اکثریتی آبادی ہندوؤں کی ہے لیکن وہ ان کے اس خیال کے ہمنوا نہیں ہیں اور اسے ناممکنات میں شمار کرتے ہیں۔
انیلہ کیانی نامی ایک صارف نے لکھا: 'ہم راجیشور سنگھ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنا اصل چہرہ دکھایا اور آر ایس ایس اور فاشسٹ بی جے پی حکومت کے ایجنڈے کے راز فاش کیے۔ امید ہے کہ دنیا سن رہی ہوگی۔'

ایک دوسرے صارف سنائپر مین نے لکھا: 'میں ایک ہندو ہوں اور میں ان کے خیال کی تائید نہیں کرتا۔ میں آپ کو بتا دوں کہ یہ راجیشور سنگھ ہندوؤں کی جانب سے نہیں بولتا ہے اور نہ ہی آر ایس ایس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انڈیا میں دوسرے مذاہب کو کنٹرول کرے۔ وہ اپنے رہنماؤں کے ذہن کی بات بولتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان کی باتوں میں نہیں آئيں گے اور متحد رہیں گے۔'
ایوان بالا کے رکن پارلیمان مجید میمن نے ٹویٹ کیا کہ 'بی جے پی/آر ایس ایس کے فاشسٹ راجیشور سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 2021 کے آخر تک انڈیا میں کوئی بھی مسلمان یا کرسچن نہیں بچے گا۔ اس سے انڈیا کے شہریوں میں نفرت اور خوف پھیلتا ہے۔ یہ اشتعال انگیز ہے۔'
یاد رہے کہ وقتاً فوقتاً بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کی جانب سے اس قسم کے متنازع بیانات آتے رہتے ہیں۔
اس سے قبل راجیشور اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب سنہ 2015 میں انڈیا کے معروف شہر آگرہ میں منعقدہ ایک پروگرام میں انہوں نے مبنیہ طور پر 300 مسلمانوں کو ہندو مذہب میں شامل کیا تھا لیکن اس کے بعد آر ایس ایس نے غیر معینہ مدت کے لیے انہیں چھٹی پر بھیج دیا تھا۔
راجیشور سنگھ کا کہنا تھا کہ ان کی صحت کی خرابی کی وجہ سے انہیں چھٹی دی گئی ہے لیکن عام تاثر یہ تھا کہ نریندر مودی کی ناراضگی کے بعد انھیں آر ایس ایس کے اس شعبے سے رخصت کر دیا گیا تھا۔
ان کا یہ مؤقف بہت پرانا ہے، ایک بار ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ سنہ 1996 سے 2015 تک کم از کم تین لاکھ افراد کی 'گھر واپسی' کرا چکے ہیں یعنی ہندو مذہب میں واپس لائے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اوسطاً ایک ہزار کنبے کی گھر واپسی کے لیے ان کی تنظیم ماہانہ 50 لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔
آر ایس ایس کا نظریہ ہے کہ انڈیا میں بسنے والے سارے ہندو ہیں اس لیے وہ تبدیلی مذہب کے کسی واقعے کو ’گھر واپسی‘ کہتے ہیں۔
اس سے قبل انڈین ایکپریس کی فروری 2016 کی رپورٹ کے مطابق آگرہ میں اس وقت کے فروغ انسانی وسائل کے نائب وزیر اور آگرہ کے رکن پارلیمان رام شنکر کٹھیار اور فتح پور سیکری کے بی جے پی ایم ایل اے کی موجودگی میں سنگھ پریوار کے مقریرین نے مسلمانوں کو ’راکشش‘ یعنی عفریت اور ’راون کے وارث‘ (راون ایک ہندو کردار ہے جس کی ہندوؤں کے بھگوان رام سے جنگ ہوئی تھی) کہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ’حتمی جنگ‘ کے لیے تیار رہنے کی بات کہی تھی۔
اخبار کے مطابق بی جے کے پی ایم ایل جگن پرساد گرگ نے کہا تھا کہ ’آپ کو گولی چلانی ہوگی، رائفل اٹھانا ہوگی، چاقو چلانا ہوگی۔ 2017 میں انتخابات ہیں، آج ہی سے اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کردیں۔'
انڈین خبروں کے لیے ’’اردونیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں