Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان سے ملاقات کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا، طالبان

طالبان ترجمان کے مطابق چین، روس اور ایران کے بعد یہ پاکستان کا باضابطہ دورہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے تصدیق کی ہے کہ ان کا ایک نمائندہ وفد پاکستان کے چار روزہ دورے پر بدھ کی رات کو اسلام آباد پہنچے گا۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ملا برادر کی قیادت میں آنے والے وفد کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کو رد نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان میں اپنے قیام کے دوران ان کی سیاسی قیادت نہ صرف عمران خان بلکہ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات کر سکتی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ملاقاتیں وفد کے بنیادی ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں اور اگر ان کے دورے کے دوران امکانات پیدا ہوئے تو یہ دونوں ملاقاتیں ہو سکتی ہیں۔
سہیل شاہین کے مطابق وفد میں ملا برادر کے علاوہ طالبان کے سابق آرمی چیف ملا فضل، عبداللہ واسق، عامر خان متقی، محمد نبی عمری، خیراللہ خیرخواہ، متقی اللہ خالص، عبدالسلام حنفی، ضیا الرحمٰن مدنی، شہاب الدین دلاور، سید رسول حلیم اور نبراس الحق عزیز شامل ہیں۔
سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان وفد کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستانی وزارت خارجہ کے سینیئر حکام سے ملاقات ہے اور ان کے ایجنڈے میں پاکستانی حکومت سے تعلقات اور امریکہ سے مذاکرات کی بحالی سمیت باہمی دلچسپی کے تمام امور شامل ہیں۔

افغان طالبان کا وفد ملا برادر کی قیادت میں روس بھی گیا تھا (فوٹو: روئٹرز)

ایک سوال کے جواب میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ابھی تک وفد کی پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات شیڈول میں شامل نہیں ہے۔
سہیل شاہین نے بتایا کہ طالبان وفد بدھ کی شام کو قطر سے روانہ ہو گا اور رات کو پاکستان پہنچے گا۔ وفد کی پاکستانی حکام سے باقاعدہ ملاقاتیں جمعرات کی صبح سے شروع ہوں گی۔
گذشتہ رات سہیل شاہین نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا تھا کہ ’سیاسی امور کے مشیر ملا برادر اخوند کی قیادت میں وفد پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرے گا اور ان ملاقاتوں میں مختلف امور پر بات چیت کی جائے گی۔‘
انہوں نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ یہ چین، روس اور ایران کے بعد چوتھے ملک کا باضابطہ دورہ ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے کہا ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد پہلے ہی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔
ملا عبدالغنی برادر طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں اور عموماً دوحہ میں رہتے ہیں۔
افغان طالبان کے پاکستان دورے کے حوالے سے افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ امن ان کی ترجیح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت کے زیر قیادت امن عمل ہی افغانستان میں پائیدار اور باوقار امن کا باعث بنے گا۔
صدیق صدیقی کے مطابق امن عمل اگر افغان حکومت کے زیر قیادت نہیں تو اس میں پیشرفت کا امکان زیادہ نہیں۔
سینئر طالبان ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ طالبان زلمے خلیل زاد کے دورے سے باخبر تھے اور طالبان ان سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔
طالبان ذرائع نے کہا ’ہم مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ امریکہ مذاکرات سے پیچھے ہوا۔‘
ایک اور سینئر طالبان ذرائع کے مطابق ملا برادر پر منحصر ہے کہ وہ کن سے بات کریں گے۔
خیال رہے کہ گذشتہ مہینے کی آٹھ تاریخ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات کو مردہ قرار دیے جانے کے بعد افغان طالبان نے روس کا دورہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے روسی خبر رساں ادارے تاس کو بتایا تھا کہ طالبان کے ایک وفد نے روسی صدر کے مشیر ضمیر کابلوف سے ملاقات کی ہے جس میں افغان امن عمل کے دوران پیش آنے والے حالیہ واقعات زیرغور آئے۔
ملا برادر اخوند ایک برس بعد پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔
ان کو گذشتہ برس 24 اکتوبر کو پاکستان نے رہا کر دیا تھا۔
ملا برادر اخوند کو 2010 میں آئی ایس آئی نے پاکستان میں گرفتار کیا تھا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: