Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مولانا کا ساتھ دینے کا فیصلہ پارٹی کرے گی‘

بلاول کے بقول کارکن پوچھتے ہیں حکومت سے نجات کب دلائیں گے، فوٹو: اے ایف پی
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے اور جمہوری احتجاج کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا کس حد تک ساتھ دیا جائے گا اس حوالے سے مشاورت  کے لیے اجلاس طلب کیا ہے۔
جمعے کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ آصف زردری کے خلاف حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں، صرف الزام پر جیل میں رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آصف زردای پہلے بھی 11 سال جیل میں گزار چکے ہیں لیکن جس طرح اس وقت کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اب بھی نہیں کریں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ وزیراعظم نے پارلیمان کو غیر فعال کر دیا ہے جس پر عوام اور جمہوری حکومتوں کے پاس سوائے سڑکوں پر آنے کے کوئی راستہ نہیں بچا، لوگ تنگ آ گئے ہیں، کارکن پوچھتے ہیں ’ہمیں اس حکومت سے کب نجات دلائیں گے۔‘

بلاول کا کہنا ہے وہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی حمایت کرتے ہیں، فوٹو: ٹوئٹر

’پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو حکومت کے سامنے کھڑی ہے، حکومت کا نشانہ اٹھارہویں ترمیم ہے، حکومت کا ظلم برداشت کریں گے لیکن شدید دباؤ کے باوجود سمجھوتہ نہیں کریں گے، سندھ حکومت کو گرانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت بے نقاب ہو گئی ہے، ہر سیاسی مخالف یہاں تک کہ ان کے گھروں کی خواتین کو بھی بند کر دیا گیا ہے، یہ منافقوں کی حکومت ہے، اسے گھر جانا پڑے گا۔‘
مولانا فضل الرحمان کا مارچ
اس وقت پاکستانی سیاست میں مولانا فضل الرحمان کا مارچ اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے، چند روز سے ایسی خبریں سامنے آ رہی تھیں کہ مسلم لیگ ن اس میں شرکت کرے گی، یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اس کی ہدایت نواز شریف کی جانب سے کی گئی ہے تاہم گذشتہ روز یہ خبر سامنے آئی کہ شہباز شریف نے صحت کی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے مارچ میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی ہے۔

بلاول کے مطابق آصف زرداری حکومت سے سمجھوتہ نہیں کریں گے، فوٹو: اے ایف پی

اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً اس کا مجموعی اثر مارچ پر پڑ سکتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف مارچ اور دھرنے کا اعلان قریباً دو ماہ قبل آل پارٹیز کانفرنس کے بعد کیا تھا۔ اے پی سی میں شامل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کی حمایت کی تھی اور وہ اب بھی اس کا دم بھرتی ہیں تاہم مجموعی طور پر لگ یہی رہا ہے کہ یہ جماعتیں مارچ اور دھرنے میں شریک نہیں ہوں گی تاہم مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا کچھ حصہ اس مارچ کے لیے تیاری ضرور کر رہا ہے۔
حکومتی ردعمل
حکومت کی جانب سے ظاہر تو ایسے کیا جا رہا ہے کہ یہ مارچ اور دھرنا اس کے لیے کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتے لیکن حکومتی نمائندوں کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ اس سے خاصے پریشان ہیں۔

شیخ رشید کہتے ہیں اسلام آباد میں ڈینگی ہے، مولانا نہ آئیں تو بہتر ہے، فوٹو: اے ایف پی

وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید بھی اکثر مولانا فضل الرحمان کو اسلام آباد نہ آنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔
جمعرات کو انہوں نے کہا تھا کہ ’مولانا اسلام آباد نہ آئیں، یہاں ڈینگی پھیلا ہوا ہے کہیں وہ اس کا شکار نہ ہو جائیں۔‘
شیخ رشید کے بیان پر مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ ’ہمارا مقابلہ ڈینگی سے نہیں ڈینگے سے ہے۔‘
اسی طرح خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے بہت زور دے کر متنبہ کیا ہے کہ ’جمعیت علمائے اسلام والوں کو صوبے سے گزرنے نہیں دیا جائے گا اور کوئی بھی اسلام آباد نہیں پہنچ سکے گا۔‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کے خلاف ایک منظم مہم دیکھنے کو مل رہی ہے جو حکومتی شخصیات اور ان کے حامی چلا رہے ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: