Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مجھے اپنے کام سے عشق ہے‘

شبیر روزانہ گھر گھر، گلی گلی اور قریہ قریہ پیدل جا کر کتابیں بیچتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں مطالعے کے لیے بہت سے نئے ذرائع متعارف ہوچکے ہیں اور کتب کا حصول پہلے کی نسبت آسان ہوگیا ہے۔لوگوں کو گھر بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے نئی اور پرانی کتابیں حاصل ہو جاتی ہیں مگرانٹرنیٹ کی سہولت سے محروم دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں آج بھی اپنی پسند کی کتابوں کا حصول آسان نہیں۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پسماندہ علاقے پشکان کے رہائشی شبیر شاکر نے اپنے علاقے کے کتب بینی کے شوقین افراد کا یہ مسئلہ حل کردیا ہے۔ وہ روزانہ گھر گھر، گلی گلی اور قریہ قریہ پیدل جا کر لوگوں کو ان کی پسند کی کتابیں فراہم کرتے ہیں۔
گوادر سے جنوب میں 45 کلومیٹر دور واقع پشکان کے دیہات میں 90 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ بلوچی زبان و ادب کے حوالے سے یہ علاقہ مقبول ہے۔ یہاں بلوچی زبان و ادب کے کئی بڑے نام پیدا ہوئے ہیں۔ شبیر شاکر خود بھی ادیب ہیں، نظم لکھتے ہیں اور کتابوں پر تبصرہ نگاری کرتے ہیں۔
شبیر شاکر نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ روزانہ صبح اور شام کے وقت اپنے کندھے پر کتابیں لیے پیدل سفر کرتے ہیں اور گلی کوچوں میں جاکر لوگوں کو ان کے گھر کی دہلیزپرکتابیں فراہم کرتے ہیں۔ بیشتر لوگ ادھار پر کتابیں خریدتے ہیں اور پھر اقساط میں رقم واپس کرتے ہیں۔

وہ کتابوں کے شوقین افراد کو قسطوں پر بھی کتابیں فروخت کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں صبح کے وقت روزانہ تقریباً دس سے بارہ کلومیٹر اور شام کو چھ سے سات کلومیٹر پیدل سفر کرتا ہوں اورصرف جمعے کے دن ناغہ کرتا ہوں۔‘
شبیر شاکر نے دس سال تک اخبار فروش کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انہیں کتب بینی کا شوق کتابوں سے متعلق ایک ریڈیو پروگرام سن کر ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کتب خانہ کے نام سے وہ پروگرام رضا علی عابدی کا تھا جو اگرچہ بہت پرانا پروگرام تھا مگر میں کہیں سے اس کی آڈیو حاصل کرکے اسے سنتا رہتا تھا۔ میں نے رضا علی عابدی کی کتابیں منگوائیں اور مطالعہ کا شوق بڑھتا گیا۔ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی لوگوں تک کتابیں پہنچانے کا کام کروں اوران میں بھی میری طرح مطالعہ کا شوق پیدا ہو،اس طرح میں نے اپنے کام کی ابتدا کی۔‘
شبیر شاکر کے مطابق آج یہ کام کرتے کرتے انہیں 11 برس ہوگئے۔ پہلے پہلے بہت مشکلات پیش آئیں، لوگ کتابیں خریدنے کی بجائے تنگ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’جب میں زنبیل کندھے پر اٹھا کر کتابیں فروخت کرتا تھا تولوگ مجھے کہتے تھے کہ اس زنبیل میں سانپ ہیں، کیا یہ کاٹتے ہیں؟  میں انہیں کہتا تھا کہ یہ کتابیں ہیں جو محبت پھیلاتی ہیں۔‘
شبیر شاکر کا کہنا ہے کہ ’اب 22 ہزار کی آبادی میں سے اکثریت میرے کام سے واقف ہے۔ میں مختلف سکولوں، کالجوں، مدرسوں، سرکاری و غیر سرکاری دفتروں اور گھروں میں جاکر لوگوں کو کتابوں کے بارے میں معلومات دیتا ہوں، انہیں ان کی پسند کی کتابیں دے دیتا ہوں اور پھر مہینے کے آخر میں انہیں بل بھیج دیتا ہوں۔ وہ مجھے اقساط میں رقم واپس کرتے ہیں۔ رقم کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی میری کوئی کتاب نقد رقم میں فروخت ہوئی۔‘

وزیر اعلی بلوچستان شبیر شاکر کے سٹال کا دورہ کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ اور باقی شہروں سے 20 سے زائد پبلشرز سے بذریعہ ڈاک کتابیں منگواتا ہوں۔ ان میں چار ادارے بلوچی زبان اور باقی اردو کے ہیں۔ ہمارے علاقے کے لوگ زیادہ تر ادبی کتابیں پسند کرتے ہیں۔‘
شبیر شاکر نے کہا کہ ’شروع میں کتاب دوستی کا ماحول بنانا بہت مشکل تھا مگر علاقے کے بہت سے لوگوں کی کتاب سے دوستی بنانے میں کامیاب ہوا ہوں۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ کتابوں سے دوستی کریں کیونکہ یہ آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دیں گی۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ کتاب سے محبت کریں، انہیں سنبھالیں اور ان کی حفاظت کریں بالخصوص میرا مقصد ادب کا فروغ ہے۔ علاقے کے ایسے لوگ جو مطالعہ اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں وہ میری عزت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کام کو آگے بڑھائیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’پشکان میں پہلے چار پانچ افراد سے زیادہ لوگوں کے پاس ذاتی لائبریریاں نہیں تھیں مگر اب 70 سے زائد لوگوں نے گھروں میں لائبریریاں بنائی ہیں اور ان میں اکثریت میری فروخت کی ہوئی کتابیں ہیں۔ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک پبلک لائبریری، ایک ہائی سکول اور ایک مدرسے میں لائبریری ہے۔ ہم نے خواتین کے لیے ایک علیحدہ لائبریری بھی بنائی ہے۔ میری کوشش ہے کہ اپنے علاقے کے تمام گھروں، دفتروں اور تعلیمی اداروں میں کتابیں اور لائبریریاں ہوں۔ میں ہر کسی سے کہتا ہوں کہ ہر مہینے کی تنخواہ میں کم از کم ایک کتاب ضرور خریدیں۔‘

ان کو کتابیں بیچتے ہوئے 11 برس ہو گئے ہیں۔

شبیر شاکر سماجی کارکن بھی ہیں اور پولیو مہم میں رضا کار کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور روزگار کا واحد ذریعہ کتب فروشی ہے۔ والد ادیب اور شاعر ہیں مگر چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر موچی کا کام کرتے ہیں۔
شبیر نے بتایا کہ ’گھر کا گزر بسرمشکل سے ہوتا ہے۔ معاشی طور پر یہ اچھا کام نہیں مگر مجھے اپنے کام سے عشق ہے۔‘
27 سالہ شبیر شاکر غیر شادی شدہ ہیں مگر ان کی خواہش ہے کہ شادی کے بعد ان کی اہلیہ بھی اس کام میں ان کا ساتھ دیں۔ ’میں چاہتا ہوں کہ میری شادی ایسی خاتون سے ہو جو گھروں کے اندر جاکر خواتین کو کتابوں کے بارے میں بتائیں، انہیں کتب بینی کی جانب راغب کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے بھائی، والد اور گھر والے میرے کام کے حامی ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ میں صرف یہی کام نہ کروں کیونکہ اس سے گھر کا گزر بسر نہیں ہوتا۔ حکومت اگر کسی لائبریری میں مجھے کوئی نوکری فراہم کریں تو میں اپنے کام کو مزید بہتر انداز میں آگے بڑھا سکتا ہوں۔‘

ان کی خواہش ہے کہ شادی کے بعد ان کی اہلیہ بھی اس کام میں ان کا ساتھ دیں۔

شبیر شاکر کے مطابق ’گوادر میں چھ سالوں سے کتب میلہ منعقد ہورہا ہے اس میلے کے انعقاد کے لیے بھی ہم نے باقی دوستوں کے ساتھ مل کر بہت کوششیں کیں اب ہر سال اس کا کامیابی سے انعقاد ہوتا ہے اور پورے پاکستان سے کتاب فروش آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں لائبریریوں کی تعداد بہت کم ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ ہمارے ہر گاﺅں، ہر شہر میں ایسا ماحول بن جائیں کہ ہر شخص مطالعہ کریں اور علم حاصل کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر چھ ماہ میں ہر گاﺅں اورہر شہر میں سرکاری سطح پر کتب میلے منعقد کریں۔‘ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: