Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانیوں کو وکیل کیوں نہیں ملتا؟

اس وقت سعودی عرب میں تقریبا 19 لاکھ پاکستانی ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا
سعودی عرب کی عدالتوں میں پاکستانی کمیونٹی کے افراد کو وکلا کی خدمات حاصل نہ ہو سکنے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ہر سال سینکڑوں افراد کو بڑے مالی نقصانات اور بے دخلیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
اس وقت سعودی عرب میں تقریباً 19 لاکھ پاکستانی ہیں جن میں سے 60 فیصد کے قریب مزدوری یعنی ڈرائیونگ، چوکیداری، تعمیراتی و صنعتی مزدوری جیسے شعبوں سے منسلک ہیں۔
دیگرشعبے جن میں پاکستانی افراد کام کرتے ہیں، ان میں دفتری، بینکاری اور سیلز کے امور شامل ہیں۔

پاکستان قونصلیٹ کے ویلفیئر قونصلر ماجد میمن کے مطابق وسائل کی کمی کی وجہ سے وکیل کی سہولت دستیاب نہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

سعودی عرب میں زیادہ ترمزدور شعبے کے افراد کو قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے انہیں بسا اوقات اپنی ملازمت کے معاہدے ہی سمجھ نہیں آتے۔ 
اپنے کفیل (سعودی عرب میں کام اور قیام کا نگران) یا کسی بھی دوسرے فرد کے ساتھ کوئی تنازعہ پیدا ہو جانے کی صورت میں انہیں عدالتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جہاں پر وسائل کی کمی کی وجہ سے انہیں وکیل کی خدمات نہیں ملتیں۔
سعودی عرب میں وکلا کی تعداد انتہائی کم ہے اور جو وکیل موجود ہیں وہ انتہائی بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں اس لیے پاکستانی متاثرین کے لیے وکیل حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
ریاض میں قائم پاکستانی سفارتخانے اور جدہ کے قونصلیٹ جنرل میں ویلفیئر اور لیبر اتاشی موجود ہیں، لیکن فنڈز کی کمی ہونے کی وجہ سے سفارتخانہ بھی تمام متاثرین کو وکیل فراہم نہیں کر سکتا۔

 

سرکاری اداروں، لیبرکورٹ، لیبرآفس اورعدالتوں میں ہموطنوں کی مدد کے لیے سفارتخانے نے دوترجمان تعینات کر رکھے ہیں اور عربی سے واقفیت رکھنے والے دو مزید سفارتی اہلکاروں سے ترجمانی کا کام لیا جاتا ہے لیکن 19 لاکھ پاکستانیوں کے لیے یہ ترجمان ناکافی ہیں اوراس وجہ سے بڑی تعداد میں متاثرین کوعدالتوں اور سرکاری دفاتر میں اپنے مقدمات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سفارتخانے کی جانب سے فراہم کیے جانے والے ترجمان عدالت میں قانونی طریقے سے مقدمہ پیش کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے، لہٰذا سنگین مقدمےکا سامنا کرنے والےافراد کو یا تو اپنے خرچ پروکیل کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، یا پھر مقدمے میں ناکامی کا سامنا۔ اور اگر مقدمہ جدہ یا ریاض کی بجائے سعودی عرب کے دوردرازشہروں میں ہو تو پھر تو ترجمان کی سہولت بھی نہیں ملتی۔
پاکستانی متاثرین کے ایک گروپ کے نمائندہ محمد زاہد نے اردونیوز کو بتایا کہ ان کا کسی معاملے پر کفیل سے اختلاف ہو گیا تھا جس کے بعد انہوں نے دو برس تک لیبر کورٹ میں خود ہی ایک مقدمہ لڑا۔ مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں آنے اور اس پر عملدرآمد کی مدت گزر جانے کے باجود ان کا مسئلہ حل نہیں کیا جا رہا اور اس معاملے میں کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا۔
’ہم باعزت طریقے سے وطن جانا چاہتے ہیں، ہمارے اقامے بھی ختم ہو چکے ہیں جبکہ عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے کفیل کو فائنل ایگزٹ لگانے اور واپسی کاٹکٹ فراہم کرنے کا بھی پابند کیا ہے، اس کے باوجود ہمارے کیس کے حوالے سے مزید کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔‘
محمد زاہد نے اردونیوز کو بتایا ’ہم نے قونصلیٹ سے رجوع کیا ہے تاکہ ہماری قانونی مدد کریں اور ہمیں باعزت طریقے سے وطن جانے دیں جو ہمارا حق ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کفیل کا سسٹم بلاک ہو گیا ہے جب تک وہ کھلتا نہیں ہمارا فائنل ایگزٹ نہیں لگ سکتا۔‘ 
’ہمارا کوئی قصوربھی نہیں اس کے باوجود ہم دو سال سے گھر جانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں، ہمارے مسئلے کا حل قانونی پیچیدگی ہے جسے وکیل ہی بہتر طور پر حل کر سکتا ہے، ہم دو برس سے لیبر کورٹ میں خود کیس لڑ رہے ہیں اب قونصلیٹ سے رجوع کیا مگر یہاں سے بھی کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ جب تک کو ئی قانون دان ہمیں میسر نہیں آئے گا معاملہ ایسے ہی رہے گا۔‘

راجہ محمد افضل کا کہنا ہے کہ پاکستانی ملازمین کے زیادہ مسائل کفیلوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

جدہ میں 25 سال سے مقیم پاکستان کے زیر اہتمام کشمیر کے رہائشی راجہ محمد افضل کا کہنا ہے کہ پاکستانی ملازمین کے زیادہ مسائل کفیلوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
’بعض اوقات معمولی اختلاف پر کفیل ہمارا ہروب (کام سے فرارکی مہر) لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کا ہروب لگ جائے اس کا سسٹم بند ہو جاتا ہے، وہ نہ اپنے ملک سفر کر سکتا ہے اور نہ ہی کہیں اور ملازمت ۔‘
وہ کہتے ہیں ’سفارتخانے کو چاہیے کہ وکیل کی خدمات مہیا کریں، بیرون ملک مقیم پاکستانی خاص کرعرب ممالک  میں رہنے والے سب سے زیادہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں اور سب سے زیادہ مشکلات بھی ان ہی کے حصے میں آتی ہیں۔‘
پاکستان قونصلیٹ کے ویلفیئر قونصلر ماجد میمن نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سفارتخانہ محدود وسائل کے باوجود کمیونٹی کی بہتر سے بہتر خدمت کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم وسائل کی کمی کی وجہ سے وکیل کی سہولت مہیا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانونی مسائل سے بچنے کے لیے پاکستانیوں کو اپنے معاملات میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
’اکثرمزدور پیشہ یا ٹیکسی ڈرائیوراپنے کفیلوں کے دباؤ میں یا کسی اور وجہ سے سادے کاغذ پر دستخط کر دیتے ہیں جو انکے لیے بعد میں بے انتہا مسائل کا باعث ہوتا ہے، کفیل سادے کاغذ پر انکے دستخط اور انگوٹھے کا نشان لے کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں اور اس وقت جب کسی بھی معاملے میں اختلاف ہو تو اپنی مرضی کا بیان تحریر کر لیتے ہیں۔‘

 

’عدالت میں تحریری کاغذ اہم دستاویزی ثبوت ہوتا ہے جس پر قاضی فیصلہ صادر کر تے ہیں، اس لیے میری اپنے ہموطنوں سے درخواست ہے کہ کسی بھی حالت میں خواہ کچھ بھی ہو جائے سادے کاغذ پر دستخط نہ کریں تاکہ بعد میں کسی مشکل صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘
سعودی عرب کی ایک معروف لاء فرم جو امریکہ، برطانیہ، سینگال، انڈونیشیا، بنگلہ دیش سمیت سات ممالک کے سفارخاتون کو وکلالت کی خدمات مہیا کرتا ہے، کے مطابق سعودی عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے لیے وکلا کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ 
سعودی عرب میں عدالتیں شرعی ہیں جہاں قاضی زیادہ ترفیصلے گواہیوں اور دستاویزی ثبوت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

شرعی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مدعی کو اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرنا ہوتی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

شرعی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مدعی کو اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرنا ہوتی ہے جبکہ مدعی علیہ کے لیے حلف کی شرط ہوتی ہے۔
عدالتی جرح زبانی بھی ہوتی ہے تاہم سوال و جواب تحریری صورت میں ہوتے ہیں۔عدالتی سوال و جواب اور جرح کا جواب دینا ترجمان کے بس سے باہر ہوتا ہے اس لیے قانونی معاملات کو نمٹانے کے لیے لاء فرم کا حصول انہتائی اہم ہے۔
ماضی میں متعدد بار پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے اس تجویز پر غور بھی کیا جاتا رہا کہ کمیونٹی کو لاء فرم کی خدمات مہیا کی جائیں مگر معاملہ فائلوں اور مذاکرات کی حد سے آگے نہیں بڑھتا جس کی وجہ سے کمیونٹی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شیئر: