Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹی وی اینکرز پر پابندی‘، وزرا کی تنقید

پیمرا نے ٹی وی چینلز کو زیر سماعت کیسز پر تبصرہ کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریکولیٹری اتھارٹی  (پیمرا) نے ایک حکم نامے کے ذریعے ٹی وی اینکروں کو اپنے چینل یا کسی دوسرے ٹی وی چینل پر بطور تجزیہ کار آنے پر پابندی لگا دی تھی۔
تاہم ادارے کی جانب سے اب ایک نئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’پیمرا اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور اینکرز کے پروگرام کرنے یا اپنے پروگرام میں متعلقہ شخصیات کو بلانے پر کوئی پابندی نہیں۔‘
اس سے قبل پیمرا نے ٹی وی چینلوں کو عدالتوں میں زیر سماعت کیسز پر تبصرہ کرنے سے بھی روک دیا ہے۔
پیمرا کی جانب سے صحافیوں کے بطور تجزیہ کار دوسروں چینلوں پر آنے پر پابندی کو نہ صرف صحافی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں بلکہ حکمران جماعت کے اہم رہنما اور وفاقی کابینہ کے ارکان بھی اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے تھے۔
پیر کی صبح وفاقی کابینہ کی رکن اور انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے پیمرا کے حکم نامے کے حوالے سے ٹویٹ کیا کہ ’کیا مجھے خارجہ یا دفاعی پالیسی پر تبصرے کے لیے انٹرنیشنل ریلیشن یا سڑیٹیجک سٹڈیز میں ڈگری کی ضرورت ہے؟ اطلاعات پر تبصرے کے لیے مجھے کونسی ڈگری چاہیے؟ کیا مہارت ڈگری سے ظاہر ہوتی ہے؟ آخر کار ہم نے تصوراتی سطح پر ایک بحث شروع کر دی ہے اور میڈیا کو اس پر دھیان دینا چاہیے۔ لیکن اس بحث کے لیے کس قسم کا ’ایکسپرٹ‘ چاہیے ہوگا؟‘
تھوڑی دیر کے بعد ایک دوسری ٹویٹ میں شیریں مزاری نے کہا کہ ’ایکسپرٹ کون ہے؟ دلچسپ مباحثے کا بلا ارادہ آغاز ہو گیا ہے۔ تو بالکل عیر سیاسی لیکن تعلیمی سطح پر سوال ہے کہ کیا مجھے سیاسی ماہر ہونے کے لیے سیاسیات میں ڈگری چاہیے؟ میرے پاس انسانی حقوق کی کوئی ڈگری نہیں تو کیا مجھے انسانی حقوق کے معاملات پر تبصرے کے لیے ٹی وی چینل پر جانا چاہیے؟‘
شیریں مزاری کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا کہ ’پیمرا کی جانب سے اینکرز پر پابندی کا نوٹیفکیشن بالکل غیر ضروری، غیر منطقی اور بلا ضرورت ہے اور میں شیریں مزاری سے متفق ہوں۔‘
سابق وزیر خزانہ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین اسد عمر نے پیمرا کے فیصلے پر اظہار حیرت کرتے ہوئے ٹویٹ کی کہ ’پیمرا کی جانب سے اینکر پرسنز پر ٹی وی چینلز پر اپنی رائے کے اظہار سے روکنے کا حیرت انگیز فیصلہ۔ پیمرا کو لوگوں بشمول اینکر پرسنز کے حقوق کو دبانے کے بجائے فیک نیوز کے خلاف کارروائی کا بہتر کام کرنا چاہیے۔‘
تاہم حکمران جماعت کے اہم رہنماؤں کی جانب سے پیمرا کے فیصلے پر تنقید کے برعکس وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان اس فیصلے کا دفاع کیا۔ انہوں نے ٹویٹ کی کہ ’کسی اینکر کو آزادی اظہار رائے سے نہیں روکا گیا۔ اینکرز اپنے شو میں ہر موضوع پر بحث کر سکتے ہیں۔ پیمرا کی جانب سے جاری کی گئی ایڈوائزری پہلے سے موجود ضابطہ اخلاق  کا اعادہ ہے۔ میڈیا کے موجودہ ضابطہ اخلاق کے تحت عدالتوں میں زیر بحث کیسز پر بات نہیں کی جاسکتی۔‘
خیال رہے کہ اتوار کو پیمرا کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں مزید کیا گیا تھا کہ ٹاک شوز میں عدلیہ اور ریاستی ادراوں کے خلاف ’یکطرفہ تجزیے‘ اور پروپیگنڈے کی صورت میں متعلقہ ادارہ ذمہ دار ہو گا۔
پیمرا نے چینلوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ٹاک شوز کے لیے بلائے جانے والے مہمانوں کے انتخاب میں احتیاط کریں اور اینکر غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں۔
ہدایت نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ٹی وی چینلز عدالت میں زیر التوا معاملات پر کوئی بھی بحث، تجزیہ یا قیاس آرائی نشر نہیں کریں گے اور اپنے چینل کو عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ایسے اینکرز جو ٹی وی پر اپنا شو بھی کرتے ہیں انہیں اپنے یا کسی اور چینل پر بطور تجزیہ کار آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جن چینلز کے پاس ٹائم ڈیلے کی سہولت موجود نہیں ہے انہیں براہ راست پروگرام نشر کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
پیمرا کے مطابق مذکورہ ہدایات اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سنیچر کو جاری کیے جانے والے احکامات کی روشنی میں جاری کی گئی ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: