Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹوٹی چپل والے کا آزادی دھرنا

ایک ہفتہ گذرنے کے باوجود بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سامنے کے مطالبات کے پیچھے اصل مطالبات کیا ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
آج  آزادی مارچ یا آزادی دھرنا جو بھی آپ کہہ لیں خیر سے ساتویں دن میں داخل ہوگیا۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سامنے کے مطالبات کے پیچھے اصل مطالبات کیا ہیں۔
بات چیت سرکاری خٹک کمیٹی یا حزبِ اختلاف کی نیم متحدہ رہبر کمیٹی کے درمیان ہو رہی ہے یا سرکاروں کو لیز پر اپنی ماہرانہ سیاسی خدمات پیش کرنے والے چوہدری برادران اور مولانا فضل الرحمان کی یک رکنی کمیٹی کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں یا کسی تیسری شکل میں بھی رابطہ کاری جاری ہے کہ جس کی ’پل پل باخبر‘ میڈیا کو ہوا تک نہیں۔
اسی لیے ہر تبصرے باز، منہ پھٹ وزیر، اینکر اور اینکرانی پانی میں قیاسی جھاگ بنا رہے ہیں یا تجزیاتی تھوک سے واقعاتی پن چکی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی پیش گوئی، کوئی توتا فال نشانے پر نہیں بیٹھ رہی۔
حزب ِ اختلاف کے اتحادیوں  کے مابین ہم آہنگی و باہمی اعتماد کا یہ عالم ہے کہ ان میں سے کوئی بھی گرا ہوا صابن اٹھانے کے لیے جھکنے کو تیار نہیں۔ جبکہ عمرانی حکومت کو یہ آئیڈیا تک نہیں کہ یہ کنارہ چلا  کہ ناؤ چلی۔
مزید پڑھیں
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ اگلے چند دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے یا اونٹ کس کروٹ بیٹھے یا لیٹے گا۔ پر ایک بات کا کریڈٹ تو ہر دوست دشمن دے رہا ہے۔
یعنی یہ مارچ یا اجتماع یا دھرنا منظم اور صبر والا ہے۔ کراچی سے اسلام آباد تک کوئی شیشہ نہیں ٹوٹا اور نہ ہی عام آدمی کو وہ زحمت ہوئی جو اس سے قبل ڈی چوک یا فیض آباد کے ہلاکو خانی دھرنوں نے پیدا کی۔ تازہ اجتماع بارانی آزمائش بھی بڑے قرینے سے جھیل گیا۔
اگر اس دھرنے میں شامل شکلیں دیکھیں تو شہری صورتیں کم اور دہقانی چہرے زیادہ نظر آئیں گے۔ یہ متوسط طبقے کا نہیں بلکہ ان طبقات کا اجتماع ہے جن کے پاس کھونے کے لیے شاید کچھ بھی نہیں۔ ان میں سے کم از کم  آدھے وہ ہیں  جنہوں نے پہلی باراسلام آباد دی بیوٹی فل دیکھا۔
چھ چھ لین کی دورویہ گرین بیلٹ یافتہ سڑکوں پر قدم رکھا، بڑے بڑے گھر اورعمارات دیکھیں۔ سبزے، پانی اوراشیا کی فراوانی اور قیمتوں کی بلندی دیکھی۔
اب جب یہ لوگ ایک دن اپنے اپنے علاقوں کو لوٹیں گے تو انہیں پہلے سے زیادہ بہتر اور واضح تصور ہوگا کہ جس پاکستان میں وہ رہتے ہیں وہ کوئی اور دیس ہے اور جس پاکستان سے وہ ہو کر آ رہے ہیں وہ کوئی اور ملک ہے۔

یہ مارچ یا اجتماع یا دھرنا منظم اور صبر والا ہے، کراچی سے اسلام آباد تک کوئی شیشہ نہیں ٹوٹا۔ فوٹو: اے ایف پی

انہیں بالکل ویسا ہی لگے گا جیسے انیسویں صدی کے ہندوستان سے لندن جانے والے کسی بھی دیسی کو لگتا تھا اور اس لگنے نے ہی اس ہندوستانی کو شعور دیا کہ حاکم کیسے رہتے ہیں اور محکوم کیسے۔ آزادی کیا ہوتی ہے اور غلامی کیا۔ سہولت کسے کہتے ہیں اور بے سہولتی کیا شے ہے۔
بنیادی سہولتوں سے مزین  روزمرہ زندگی کیا ہوتی ہے اور کنوئیں سے پانی بھر کر لانے یا جنگل سے لکڑی کاٹ کر جلانے والے چولہے پر پکنے والے کھانے اور ریسٹورنٹ کے کھانے کے ذائقے میں کیا کیا فرق ہوتا ہے۔ ان کا برقعہ کیسا ہے اور دوسرے پاکستان میں پردے کی نوعیت کیا ہے۔
بے رنگ وعدہ کیا ہوتا ہے اور تعبیر کتنی رنگارنگ ہوتی ہے۔ حال سے  بے حال زندگی کسے کہتے ہیں اور مستقبل میں چھلانگ لگانے کے مواقعوں سے مسلح زندگی کیا شے ہے۔
ایرانی انقلاب 1979 میں تھوڑی آیا تھا۔ یہ تو تب سے آنا شروع ہو گیا تھا جب پچاس کی دہائی سے ایرانی دہقانوں کی دارلحکومت تہران میں آہر جاہر شروع ہوئی۔ جس بھی بیرونی مہمان کو ایران کی ترقی دکھانا مقصود ہوتی وہ تہران دیکھ لیتا کیونکہ تہران سے باہر کا زمانہ تہران کے اشرافی کیلنڈر سے کم  ازکم سو برس پیچھے تھا۔ لگتا تھا گویا تیل کی نصف آمدنی تہران پر لگنے کے لیے ہے اور باقی نصف باقی ایران کے لیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اب اسلام آباد اور لاہور کو دیکھ کے محسوس ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں
جب مجھے یہ لگ رہا ہے تو سوچیے  پشین، ژوب، لکی مروت، دادو اور راجن پور سے آزادی مارچ  کے بہانے پہلی بار لاہور سے گذرتے ہوئے اسلام آباد آنے والے پاکستانی کو کیا کیا لگ رہا ہوگا۔ لورالائی کے بھی کسی گاؤں  کے مدرسے میں زیرِ تعلیم لڑکے یا ایسے ہی کسی مدرسے کے استاد کو کیا لگے گا جب وہ اگلے چند دن میں واپس گاؤں یا گاؤں کے مدرسے میں جائے گا۔ انیسویں اور اکیسویں صدی میں دو سو سال کا نہیں صرف ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔
آپ نے بھی سوشل میڈیا پر اس کھردرے پیر کی وائرل تصویر دیکھی ہو گی جو جانے کتنی دور سے ایسی پٹھانی چپل میں اسلام آباد تک پہنچا کہ جس کی چمڑے کی ادھڑی پٹی کو موٹے دھاگوں سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ یہی پیر تو وہ دوسرا پاکستان ہے جس کے بارے میں کہا جا چکا ہے کہ
امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے
جانے کون اس ٹوٹی چپل کے پیسے وصول کرے گا اور اسے پہننے والے کو خبر تک نہ  ملے گی کہ اس کی یہ مفلوک چپل کتنی مہنگی بکی ہے اور وہ اسی چپل میں واپس جائے گا۔ کیونکہ اشرافیہ کی دنیاداری میں دینداری کے پیوند لگے عقیدے کے برعکس اس  ٹوٹی چپل والے کے لیے سب اجر آخرت کے صندوق میں حفاظت سے رکھا  ہے کہ جس کی چابی صرف مرنے کے بعد ہی اسے مل سکتی ہے۔

شیئر: