Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ’طلسمی درخت‘ پر ہنگامہ کیوں کھڑا ہو گیا؟

پولیس کے مطابق جب یہ خبر اُڑی کہ درخت کو کاٹ دیا گیا ہے تو پھر لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ فوٹو: ٹی او آئی
انڈیا میں گذشتہ دو ہفتوں سے ریاست مہاراشٹر میں حکومت سازی کے پیچ و خم اور بابری مسجد-رام مندر فیصلے سے متعلق خبریں شہ سرخیوں میں ہیں لیکن چند ایسی خبریں بھی ہیں جو کم لوگوں کی نظروں سے گزری ہیں۔
یہاں ایسی ہی چند خبریں پیش کی جا رہی ہیں۔

ایک ’طلسمی درخت‘ پر ہنگامہ

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے ہوشنگاباد ضلعے میں شیروں کی پناہ گاہ میں ایک مہوے کا درخت ان دنوں لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
ستپورہ ٹائیگر ریزرو (ایس ٹی آر) میں موجود اس درخت کے جادوئی اثرات کا کئی ماہ سے چرچا ہے لیکن گذشتہ دنوں یہ اس وقت خبروں میں آیا جب وہاں بھیڑ میں مسلسل اضافہ ہونے لگا اور پولیس نے درخت کے پاس جانے پر پابندی لگا دی۔
اس پابندی کے نتیجے میں زائرین اور محکمۂ جنگلات کے افسران کے درمیان تصادم بھی ہوا جس میں قریباً ایک درجن افراد زخمی ہو گئے۔

انڈیا میں شیروں کو گننے کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھا دیا گیا ہے. فوٹو: ٹوئٹر

کہا جاتا ہے کہ اس درخت کا طواف کرنے یا اسے چھونے سے پریشانیاں اور بیماریاں فوری طور پر دور ہو جاتی ہیں اور اسی افواہ کے بعد لوگ ہاتھوں میں ناریل، اگربتی، لیموں اور دیا لے کر اپنے رشتہ داروں اور معذوروں کو لے کر وہاں پہنچنے لگے۔
ایس ٹی آر کے نائب ڈائریکٹر لوکیش نیراپورے نے بتایا کہ پہلے تو لوگ کم تعداد میں آ رہے تھے لیکن جوں جوں یہ افواہ پھیلتی گئی لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور ان پر قابو رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
پھر یہ خبر اُڑی کہ اس درخت کو کاٹ دیا گیا ہے جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ وہاں پہنچے اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ اب وہاں تعزیرات ہند کی دفعہ 144 نافذ ہے یعنی وہاں چار یا چار سے زیادہ افراد کا ایک جگہ اکٹھا ہونا منع ہے لیکن انڈین میڈیا کے مطابق وہاں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے سابق چیف سیکرٹری ایس سی بیہار نے کہا ’اس افواہ کا کوئی سائنسی جواز نہیں ہے کہ درخت میں اس قسم کی کوئی طاقت ہے۔ یہ تو ہمات ایسی ہی ہے جیسا کہ خود ساختہ بابا لوگ اپنے بارے میں پھیلاتے ہیں۔ یہ بھی محض افواہ ہے۔‘
 تاہم اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق ان چند دنوں میں ہی وہاں جانے کے راستے پر 300 دکانیں کھل گئی ہیں۔

شیروں کی گنتی پر اعتراض

جب بات شیروں کی پناہ گاہ سے نکلی ہے تو یہ خبر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ماہرین نے انڈیا میں شیروں کو گننے کے طریقۂ کار پر سوال اٹھا دیا ہے۔
جولائی میں انڈین حکومت نے یہ بتایا تھا کہ ملک میں شیروں کی تعداد میں ایک تہائی یعنی 33 فیصد ا‌ضافہ ہوا ہے اور 2014 کی گنتی مقابلے میں اب شیروں کی تعداد دو ہزار 967 ہے۔
لیکن وائلڈ لائف کے سائنس دان اولاس کرنتھ سمیت کئی لوگوں نے انڈیا میں شیروں کی گنتی کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا ہے۔
انڈین اخبار دا ہندو کے مطابق انڈین ادارہ شماریات کے ارجن ایم گوپال سوامی اور دیگر افراد نے ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے جو کہ ’کنزرویشن سائنس اینڈ پریکٹس‘ نامی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کس طرح نمونے پر مبنی وسیع انتشار سے انڈیا کی نگرانی کی قلعی کھل جاتی ہے۔
اس میں کئی سطح پر سوالات اٹھائے گئے ہیں جن میں حساب کتاب کی غلطی، ڈیزائن کی کمی اور اعداد و شمار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اعداد و شمار کے شیئر کیے جانے میں شفافیت کی مکمل کمی شامل ہے۔
خیال رہے کہ انڈیا میں شیروں کو گننے کا طریقہ کار وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اور نیشنل ٹائیگرز کنزرویشن اتھارٹی نے تیار کیا جبکہ ملک گیر سطح پر اس کام کو محکمۂ جنگلات نے انجام دیا ہے۔
اس مقالے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شیروں کی گنتی کے مروجہ طریقہ کار کو مسترد کیا جائے اور نیا طریقۂ شمار اختیا ر کیا جائے۔

طوطے چور گرفتار

طوطا چشم تو آپ نے سنا ہو ا لیکن کیا آپ نے طوطا چور سنا ہے؟
گذشتہ جمعے کو محکمۂ جنگلات کی خصوصی ٹاسک فورس نے ریاست اترپردیش کے مشرقی ضلعے گورکھپور میں طوطے کی سمگلنگ کرنے والے ایک گروہ کو پکڑا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے فیسوں میں اضافے اور ڈریس کوڈ کے خلاف احتجاج کیا۔ فوٹو: پی ٹی آئی

نائب فارسٹ آفیسر ٹی این سنگھ نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا ’انہوں نے اس حوالے سے چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا ’ان کے پاس سے 500 طوطے برآمد کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ طوطے کو 200 سے 250 روپے میں فروخت کرتے تھے۔‘

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی شہ سرخیوں میں

انڈیا کا معروف تعلیمی ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) ایک بار پھر سے سرخیوں میں ہے اور انڈیا کے مختلف چینلز دن رات اس لو زیر بحث لا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جے این یو کے طلبہ گذشتہ کئی ہفتوں سے فیسوں میں اضافے، ڈریس کوڈ اور ہاسٹل کے اوقات کے خلاف دھرنے اور ہڑتال پر تھے لیکن گذشتہ دنوں جب کانوکیشن کے موقعے پر انہوں نے انسانی وسائل کے فروغ (ایچ آر ڈی) کے وزیر کو مبینہ طور پر گھنٹوں تک روکے رکھا تو ان کے خلاف واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔

پولیس نے یونیورسٹی کے احتجاجی طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا۔ فوٹو: پی ٹی آئی

گذشتہ پیر کو جے این یو اپنا تیسرا کانوکیشن منا رہا تھا اور اس میں نائب صدر جمہوریہ ونکیا نائیڈو کے ساتھ ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ (ایچ آرڈی) کے وزیر رمیش پوکھریال ’نیشنک‘ مدعو تھے۔
ان کے پرزور مظاہرے کے بعد ملکی سطح پر اس پر گرما گرم بحث ہوئی اور بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات جزوی طور پر تسلیم کر لیے۔
ڈریس کوڈ اور ہاسٹل میں آنے جانے کے اوقات کی پابندی کو واپس لے لیا گیا جبکہ ہاسٹل فیس کے معاملے میں غریب طلبہ کو چھوٹ دینے کی بات کہی گئی ہے۔
طلبہ کی حمایت میں اساتذہ کی یونین نے بھی ہڑتال کی کال دی تھی۔ جے این یو میں قریباً 50 فیصد طلبہ غریب گھرانوں سے آتے ہیں اور ان کے لیے اضافی فیس دینا بظاہر بہت مشکل ہے، لیکن جب سے بی جے پی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے جے این یو کسی نہ کسی حوالے سے سرخیوں میں رہا ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: