Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سماعت کا دوسرا دن: ’گمشدہ پٹیشنر کدھر رہ گئے؟‘

سپریم کورٹ کا رکنی بینچ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کر رہا ہے
سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت  بدھ کو صبح ساڑھے نو بجے ہونا تھی مگر گھنٹوں قبل ہی سپریم کورٹ میں چہل پہل شروع ہو گئی۔ عدالت کی پارکنگ صبح ہی فل ہو گئی تھی اور متعدد وکلا اور صحافیوں  کو اپنی گاڑیاں پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر عمارتوں کی پارکنگ میں کھڑی کر کے پیدل آنا پڑا۔
 سماعت کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔  آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل فروغ نسیم، جنہوں نے کل ہی  وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا، جب وکلا کے جھرمٹ میں احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو رپورٹرز نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ تاہم انہوں نے سلام دعا کے علاوہ کوئی جواب دینے سے گریز کیا اور رپورٹرز  اور کیمرہ مینوں کے ساتھ ساتھ کمرہ عدالت کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھتے گئے۔

 

 
عدالت کی عمارت کے آس پاس اور اندر بھی پولیس اور سکیورٹی کے اہلکاروں کی معمول سے زائد نفری موجود تھی۔ کورٹ روم نمبر ایک میں داخل ہوئے تو وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔  کمرہ عدالت وکلا، رپورٹرز اور اینکرز سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کئی سینئر صحافی اور وکلا آج دوسرے شہروں سے خصوصی طور پر عدالت آئے تھے۔
 ہر طرف سے پرتجسس سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تقریبا ساڑھے نو بجے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے ان کے دائیں جانب جسٹس مظہر عالم اور بائیں جانب جسٹس منصور علی شاہ براجمان تھے۔ 
سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس نے درخواست گزار  کے بارے میں استفسار کیا کہ گمشدہ پٹیشنر کا کچھ پتا چلا وہ کدھر رہ گئے۔ اس پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی  پیش ہوئے اور کہا کہ اور حالات پیدا ہو گئے ہیں مگر چیف جسٹس نے کہا آپ تشریف رکھیں انہیں حالات میں ہم آگے بڑھیں گے۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ عدالت نے کیس میں سو موٹو نہیں لیا بلکہ درخواست کو ہی سنا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف کو آئین  کی دفعہ 243 کے تحت تعینات کیا گیا ہے اور  آرمی کے قواعد کے مطابق توسیع دی گئی ہے۔ عدالت نے ان سے پوچھا کہ توسیع کا ذکر کن قواعد میں ہے؟ جس پر انہوں نے آرمی ایکٹ اور آرمی ریگولیشن کے مینول پڑھ کر سنائے۔ اس موقع پر جج صاحبان نے کہا کہ یہ مینول ہم کل سے مانگ رہے ہیں۔  اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں خود یہ آج صبح ملے ہیں اور وہ فوٹو کاپی کرا کر لائے ہیں۔ یہ مارکیٹ میں بھی دستیاب نہیں۔
سماعت کے دوران توسیع کے ذکر پر  اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر چیف جسٹس نے تصیح کرائی اور کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم جب احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو رپورٹرز نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی (فوٹو: اے ایف پی)

سماعت کے دوران متعدد تکنیکی امور زیر بحث آتے رہے اور ججز آپس میں مشاورت کرتے رہے جبکہ اٹارنی جنرل خاص طور پر جسٹس منصور کے تکنیکی سوالات کے جوابات دینے میں کافی پریشان نظر آئے۔متعدد بار انہیں ججز نے کہا کہ ہمارے پورے سوال پہلے سن لیں تاکہ آپ کو جواب دینے میں آسانی ہو۔ایک بار تو چیف جسٹس نے ان سے پوچھا ’اٹارنی جنرل صاحب آپ جلدی میں تو نہیں؟‘۔۔جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں وہ تو رات تک سماعت کے لیے تیار ہیں۔ دن کے وقفے سے پہلے  چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک رولز کی سکیم سمجھ نہیں آ رہی جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ ایسے میں چائے کا کپ چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں بھی سٹرانگ کافی کا کپ درکار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ہے کسی شخصیت کا معاملہ نہیں اگر سب  قانون کے مطابق ہے تو عدالت کو کوئی اعتراض نہیں۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے متعدد بار اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کتنی ہوتی ہے اور اس کا دورانیہ کس قانون میں درج ہے جس پر اٹارنی جنرل نے انہیں میجر سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک کی ریٹائرمنٹ کی معیاد بتائی۔شام کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رول 262 میں ایک جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ جس پر جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ یہ عجیب سی بات ہے اور ایک افسر یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ ھمیشہ رہے گا۔
ایک موقع پر جب آرمی ایکٹ کے رولز 1954 پر بات ہو رہی تھی تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے اندر  حلف کا بھی ذکر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کا وفادار رہوں گا۔ انہوں نے حلف پڑھ کر بھی سنایا اور کہا کہ یہ بہت بڑا حلف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دفاع وطن کے لیے جان بھی دینی پڑی تو دوں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاک فوج جمہوری ادارہ نہیں ہے یہ کمانڈ ایشو ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آئین میں بھی فوج کے افسران کا حلف موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میں پاکستان اور اس کے آئین کا وفادار رہوں گا اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لوں گا اور دیانتداری کے ساتھ پاکستان کی خدمت کروں گا۔ حلف پڑھ کر انہوں نے انگریزی میں کہا ویری گڈ ۔
کمرہ عدالت میں وکلا اور صحافیوں کی بڑی تعداد ایک ایک نکتے کو غور سے سن رہی تھی۔ آرمی ایکٹ ، آرمی ریگولیشن اور رولز کی شقوں کو متعدد بار اٹارنی جنرل نے پڑھا اور ججز صاحبان نے بھی پڑھا۔ اس موقع پر ایک نئے صحافی کے منہ سے نکل گیا کہ’ آج تو تکنیکی دلائل سن سن کر دماغ کی دہی بن گئی ہے
اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ میں واضح کر دوں کہ پاک فوج جمہوری ادارہ نہیں ہے یہ کمانڈ ایشو ہے اور پوری دنیا میں فوج اسی طرح چلتی ہے جس پر جسٹس منصور نے فوراً  کہا کہ’ ہمیں پتا ہے۔‘  جسٹس منصور نے پوچھا کہ آرمی چیف کے عہدے کی معیاد کہاں لکھی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی قانون میں نہیں لکھا مگر آئینی کنونشن ہیں جس کے تحت تین سال یا چار سال مدت ہو سکتی ہے اور توسیع بھی دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایک ریٹائرڈ شخص کو آرمی چیف مقرر کیا جا سکتا ہے تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں ایسا کرنے پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا 10 سال پہلے ریٹائر ہو جانے والے شخص کو بھی گھر سے بلا کر آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین میں اس کی ممانعت نہیں۔ جس پر جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین میں تو یہ بھی نہیں کہ وہ فوجی ہوں کسی بھی شخص کو آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے آپ کو بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں تو ایڈہاک ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی نہیں لکھا ہوا۔
ایک موقع پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے روسٹرم پر آ کر پھر کہا کہ وہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں ۔جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان کی استدعا پھر مسترد کر دی۔ درخواست گزار کو بھی چیف جسٹس نے مزاقاً کہا کہ اٹارنی جنرل کے بیان کے مطابق تو آپ کو بھی آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے۔ جس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: