Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وزیر اعظم کو آرمی چیف کی ازسر نو تعیناتی کا اختیار نہیں‘

عدالت نے آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تعیناتی کے لیے حکومت کے طریقہ کار میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پہلے سوالات اٹھائے اور پھر ان تمام سوالات کے جوابات بھی تحریر کیے۔
عدالت نے آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تعیناتی کے عمل کے دوران حکومت کی جانب سے اختیار کیے گئے طریقہ کار میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔  

حکومت نے کیا غلطیاں کیں؟ْ

جسٹس منصورعلی شاہ کی جانب سے لکھے گئے فیصلے کے مطابق حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت یا دوبارہ تعیناتی کے دوران 11 غلطیاں کی ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم نے جنرل باجوہ کو 19 اگست 2019 کو تین سال کے لیے از سر نو آرمی چیف تعینات کیا جبکہ وزیر اعظم کے پاس ایسا کوئی آئینی اختیار ہی نہیں تھا۔ وزیراعظم کے حکم نامے میں تین سال کی مدت کے تعین کو بھی کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ وزیر اعظم کے حکم نامے کے ذریعے کی گئی تعیناتی کو بھی قانونی تحفظ حاصل نہیں کیونکہ کسی قانون میں دوبارہ تعیناتی کا ذکر ہی موجود نہیں۔
وزارت دفاع نے اپنی سمری میں مدت ملازمت کی تکمیل اورریٹائرمنٹ کا ذکر کیا لیکن اس حوالے سے کسی قانون کا حوالہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اسی سمری میں توسیع دینے کی تجویز دی گئی لیکن پاکستان آرمی ایکٹ 1952، آرمی ریگولیشنز 255 یا کوئی بھی قانون نہ تو کسی جنرل کی ریٹائرمنٹ سے متعلق ہے اور نہ ہی مدت ملازمت کا تعین کرتا ہے۔
صدر مملکت نے اسی سمری کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی جبکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت صدر کو تعیناتی کا اختیار ہے، مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں ہے۔
حکومت نے اگلے ہی دن اپنا موقف بدلا اور صدر مملکت کی طرف سے تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لیے بغیر معاملہ کابینہ میں لے گئی۔ کابینہ کے 25 میں سے 11 ارکان نے سمری پر دستخط کیے۔ حکومت نے وفاقی حکومت کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
کابینہ سے منظوری لینے کے معاملے میں بھی قواعد کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ سیکریٹری کابینہ کو وزرا کو جواب دینے کے لیے وقت کا تعین کرنا تھا جو نہیں کیا گیا۔
26 نومبر کو وزارت دفاع نے ترمیم شدہ آرمی ریگولیشنز 255 کے تحت ایک نیا نوٹیفیکیشن جاری کیا جس کا اس لیے کوئی قانونی جواز نہیں تھا کہ قانون میں جنرل کی مدت ملازمت اورریٹائرمنٹ کا ذکر ہی موجود نہیں۔

عدالت کے سامنے سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع  دیتے وقت آئینی و قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں؟ فوٹو: اے ایف پی

آخر کار 28 نومبر کو جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ روکنے اور مدت ملازمت میں توسیع کی سمری وزارت دفاع نے وزیر اعظم کو بھجوائی جو انھوں نے ایڈوائس کے ساتھ صدر مملکت کو بھیجی اور صدر مملکت نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری دی۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جب ایک جنرل کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں قانون خاموش ہے تو اس کی مدمت ملازمت میں توسیع ایک مفروضے پر ہی دی گئی ہے۔

عدالت کے مشاہدات

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع  دیتے وقت آئینی و قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں؟
دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی ریگولیشن کا رول 255 آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار دیتا ہے؟
اس تفصیلی فیصلے میں ان سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 243، پاکستان آرمی ایکٹ 1852 اور آرمی ریگولیشنز کا تفصیلی تجزیہ پیش کرنے کے بعد عدالت نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’آرمی ایکٹ 1952 میں آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت بالعموم پاک فوج کے انتطامی ڈھانچے کی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے خامیاں موجود ہیں۔
خاص طور پر کمیشنڈ افسران کی تقرری اور قواعد و ضوابط، جنرل کی مدت ملازمت اور توسیع کا ذکر موجود نہیں۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ ’ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا متبادل نہیں ہوسکتی فوٹو: سوشل میڈیا

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تنخواہ و مراعات مقرر کرنے کا اختیار صدر کے پاس ہے لیکن اس کی مدت ملازمت اور توسیع کا ذکر آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز میں نہیں ہے۔ قانون میں جنرل کے عہدے کی مدت کا بھی تعین نہیں کیا گیا جبکہ ادارہ جاتی پریکٹس کے طور پر تین سال مکمل ہونے پر جنرل ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ ’ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ قانون میں مدت ملازمت میں توسیع کا نہ تو کوئی ذکر ہے اور نہ ہی یہ ادارہ جاتی پریکٹس ہے کہ قانون نہ ہونے پراس پریکٹس پر عمل کر لیا جائے۔‘
’کسی ایسے قانون کی عدم موجودگی میں جس میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، مدت ملازمت اور توسیع کا ذکر موجود نہ ہو وزارت دفاع کی تمام سمریاں اور صدر مملکت کی جانب سے دوبارہ تعیناتی، وزیر اعظم اور کابینہ کی سفارشات اور توسیع جیسے اقدامات بے معنی ہوجاتے ہیں۔‘
آرمی ریگولیشنز کے ریگولیشن 255 ترمیم کے باوجود وفاقی حکومت کو ایک جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا جبکہ ان ریگولیشنز میں ریٹائرمنٹ کے حوالےسے بھی قانون سے تجاوز کیا گیا ہے۔‘
عدالت نے حتمی فیصلے میں لکھا ہے کہ حکومت کی جانب سے چھ ماہ میں مناسب قانون سازی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اگر حکومت چھ ماہ میں آرمی چیف کی تعیناتی، مدت ملازمت، قواعد و ضوابط ، توسیع اور ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون سازی میں ناکام ہوتی ہے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2016 سے اپنی تین سالہ کی مدمت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ریٹائرڈ تصور ہوں گے اور صدر مملکت نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ حکومت مدت ملازمت، توسیع اور ریٹائرمنٹ جیسے معاملات کو قانون کے دائرہ کار میں لائے فوٹو: اے ایف پی

مدت ملازمت کا تعین کیوں ضروری ہے؟

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ صدر مملکت آئینی عہدوں پر تعیناتی کرتے وقت مدت ملازمت کا تعین کرتے ہیں۔ وزیراعظم جن کی ایڈوائس پر صدر آرمی چیف کا تعین کرتے ہیں ان کا عہدہ بھی ایک خاص مدت کا ہے۔
عدالت نے 18 آئینی عہدوں، جن میں وفاقی کابینہ کے اراکین، اعلی عدلیہ کے ججز، اٹارنی جنرل، چیف الیکشن کمشنر اور اراکین الیکشن کمیشن، ارکان اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور چیئرمین پبلک سروس کمیشن شامل ہیں، کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان سب کی مدت ملازمت یا تو آئین میں موجود ہے یا قانون میں موجود ہے اور وہاں نہیں تو رولز میں اس کا ذکر موجود ہے۔ صرف سروسز چیفس کی مدمت ملازمت پر آئین و قانون خاموش ہیں۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ حکومت مجوزہ قانون سازی میں تعیناتی، تقرری، ملازمت کے قواعد و ضوابط، مدت ملازمت، توسیع اور ریٹائرمنٹ جیسے معاملات کو قانون کے دائرہ کار میں لائے۔

شیئر: