Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کا متنازع قانون پر عمل درآمد روکنے سے انکار

انڈیا کی سپریم کورٹ نے شہریت کے نئے قانون کی عمل درآمد روکنے سے انکار کر دیا ہے۔ 
بدھ کو اس قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا شرد اروند بوبڈے نے حکومت کو زبانی حکم بھی جاری کیا کہ وہ اس قانون میں ترمیم کی وجہ بھی عام کرے تاکہ عوام میں اس کے مقاصد سے متعلق خدشات دور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر مزید سماعت جنوری میں ہوگی جب سردیوں کی چھٹیوں کے بعد عدالت واپس کھلے گی۔
عدالت میں دائر درخواستوں پر بیک وقت کئی وکلا کی جانب سے دلائل دیے جا رہے تھے۔
اس پر حکومت کے وکیل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ ’میں پاکستان کی سپریم کورٹ گیا تھا۔ وہاں ایک روسٹرم ہوتا ہے جہاں صرف ایک وکیل بینچ سے مخاطب ہوتا ہے۔۔۔ہمارے پاس بھی ایسا کچھ ہونا چاہیے۔‘
واضح رہے کہ 60 سے زائد درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کی روح سے متصادم ہے۔
دوسری جانب آسام سے موصول ہونے والی رپورٹس میں کہا جا رہا تھا کہ وہاں قدرے سکون ہے اور لوگ سپریم کورٹ کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اگر سپریم کورٹ نے اس قانون کو منظور کر لیا تو یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ آسام میں پھر سے احتجاج اور مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔

60 سے زائد درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کی روح سے متصادم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس سے قبل انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ حکومت نئے ترمیمی قانون کو نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور کہا کہ جامعہ یونیورسٹی میں ہجوم کے تشدد پر کنٹرول کرنے کے لیے پولیس ایکشن ضروری تھا۔
انڈیا اکانومک کانکلیو سے خطاب کرتے ہوئے شاہ نے کہا کہ 'شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ کیونکہ تقریباً 22 یونیورسٹیوں میں ردعمل سامنے آیا جبکہ صرف چار یونیورسٹیوں علی گڑھ، جامعہ ملیہ، لکھنؤ اور جے این یو میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہو‏ئے ہیں۔'
گذشتہ روز منگل کو دہلی کے پریس کلب میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اپوروانند نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے پولیس ایکشن کا رشتہ وزارت داخلہ سے جوڑتے ہوئے کہا 'ہمیں یہ بتایا گیا کہ بغیر وزارت داخلہ کی ہدایت کے پولیس اس طاقت کے ساتھ اور اس ارادے کے ساتھ یہ سب کچھ کر ہی نہیں سکتی تھی۔ اس لیے ابھی یہ امید کرنا کہ پولیس نرمی برتے گی غلط ہے۔'
منگل کو ہی مشرقی دلی کے سیلم پور اور جعفرآباد علاقے میں پرامن مظاہرہ یکایک اس وقت پرتشدد ہو اٹھا جب مظاہرین میں سے کسی نے پتھر بازی شروع کر دی۔
دہلی پولیس کے جوائنٹ کمیشنر آلوک کمار کے مطابق اس میں 21 افراد زخمی ہوئے جن میں 12 دہلی پولیس کے جوان ہیں جبکہ تین ریپڈ ایکشن فورسز کے جوان ہیں۔ پولیس کے مطابق پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
دلی کے وزیر اعلی اور ‏عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے تمام دلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی ہے اور لکھا ہے کہ 'ایک مہذب سماج میں کسی قسم کا تشدد برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تشدد سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اپنی بات پرامن طریقے سے کہنی ہے۔'
 
 
شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے اور سول سوسائٹی کے دس ہزار افراد نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پولیس ایکشن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کرفیو کے نفاذ کے خلاف اپنا احتجاج درج کرتے ہوئے پیٹیشن پر دستخط کیا ہے۔
گذشتہ روز منگل کو دہلی میں جامعہ علاقے کے سابق کانگریس رکن اسمبلی آصف محد خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جبکہ پرتشدد واقعات میں گرفتار کیے جانے والے چھ افراد کو 14 دنوں کی جوڈیشیل حراست میں دے دیا گيا۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینرجی نے کہا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دیں گی۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی دوران حزب اختلاف نے کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی کی قیادت میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند سے ملاقات کی ہے اور مودی حکومت کے خلاف شکایت کی ہے کہ حکومت پرامن مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'جمہوریت میں لوگوں کی آواز دبائی نہیں جا سکتی ہے۔'
بہوجن سماج پارٹی نے فیصلہ کیا ہے ان کی پارٹی صدر جمہوریہ سے ملاقات کرے گی اور ان سے شہریت کے ترمیمی قانون کو منسوخ کرنے کی اپیل کرے گی۔
خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینرجی نے کہا ہے کہ وہ شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف جمعرات اور جمعے کو ریلیوں کی قیادت کریں گی جبکہ وہ گذشتہ دو دنوں سے مختلف ریلیوں سے خطاب کرتی رہی ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں اسے نافذ نہیں ہونے دیں گی حالانکہ وہ قانونی طور پر اس کی مجاز نہیں ہیں۔

شیئر: