Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا وزن بھی او آئی سی کے پلڑے میں

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ او آئی سی ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے اسلامی دنیا کے 57 ممالک جڑے ہوئے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
حالیہ دنوں میں کوالالمپور کانفرنس کے ذریعے اسلامی ممالک کے نئے بلاک کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے تناظر میں پاکستان نے واضح طور پر اپنا وزن اسلامی کانفرنس تنظیم یا او آئی سی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں حکمران جماعت کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ او آئی سی ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے اسلامی دنیا کے 57 ممالک جڑے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم کے دورہ ملائشیا کے منسوخ ہونے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان مسئلے کا حصہ نہیں بننا چاہتا بلکہ حل کا حصہ بننا چاہتا ہے اور مسلم دنیا کو اکھٹا کرنا چاہتا ہے۔ عربی اور عجمی کے ایشو سے نکل کر امت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ 
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ترکی اور ملائشیا سے اچھا تعلقات ہیں تاہم فیصلہ ملک اور امہ کے مفاد میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے اور  جب ہمارے ڈالر کے ذخائر ختم ہو گئے تو بحران کے حل میں مدد دے کر ملک کو تقویت دی ہے۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات حال ہی میں سعودی عرب میں او آئی سی کی گولڈن جوبلی تقریبات میں بھی شریک تھیں۔وہاں بھی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان او آئی سی کا بانی ممبر ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان اس فورم سے توقعات رکھتے ہیں.

پاکستان کے وزیراعظم جون میں او آئی سی کے ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے (فوٹو:اے ایف پی)

او آئی سی کی تاریخ پر ایک نظر

اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے جس کے چار براعظموں میں ستاون ممبر ممالک ہیں ۔
یہ تنظیم 25 ستمبر 1969 کو مراکش کے شہر رباط میں اس وقت  قائم ہوئی تھی جب بیت المقدس کو جلایا گیا تھا۔
سن 1970 کو اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوئی تھی جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ جدہ میں او آئی سی کا جنرل سیکرٹریٹ قائم ہو گا جس کی سربراہی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کریں گے۔
تنظیم کے موجودہ سیکرٹری جنرل یوسف احمد العثمین اس کے گیارویں سربراہ ہیں جنہوں نے نومبر 2016 کو اپنا عہدہ سنبھالا۔
تنظیم کا چارٹر 1972 میں منظور کیا گیا اور تنظیم نے طے کیا کہ وہ مسلم ممالک کے درمیان یک جہتی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے کوشاں رہے گی۔
گذشتہ چار دہائیوں میں تنظیم کے ممبران کی تعداد 30 سے ستاون ہو چکی ہے۔ سن 2008 میں  تنظیم کے چارٹر میں ترمیم کرکے اسے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا۔

گذشتہ چار دہائیوں میں او آئی سی کے ممبران کی تعداد 30 سے ستاون ہو چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اسلام اور مسلمانوں کے لیے او آئی سی کا کردار

آج یہ تنظیم دنیا  بھرکے مختلف حصوں میں رہنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئےان سے متعلق امور کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ تنظیم ممبر ممالک سے متعلق تنازعات کے حل کے لیے کوشش کرتی ہے۔
اس تنظیم نے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے غلط فہمیوں اور شبہات کو ختم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے بھی او آئی سی کا اہم کردار رہا ہے۔  
اکیسویں صدی میں مسلم ممالک کو نئے چیلنجز درپیش ہوئے تو مکہ مکرمہ میں منعقدہ او آئی سی کے تیسرے غیر معمولی سربراہی اجلاس میں ایک دس سالہ لائحہ عمل تشکیل دیا گیا تاکہ ممبر ممالک میں تعاون بڑھا یا جا سکے۔  سن 2015 میں یہ دس سالہ پلان آف ایکشن کامیابی سے مکمل ہو گیا اور ایک نیا دس سالہ پلان 2016 سے 2025 کے لیے تشکیل دے دیا گیا۔
نئے پلان آف ایکشن میں او آئی سی چارٹر کے مطابق 18 ترجیحی شعبوں میں 107 اہداف طے کیے گئے ہیں۔ ان اہداف میں امن اور سلامتی کا حصول، فلسطین، بیت المقدس، غربت کے خاتمے، دہشت گردی کا قلع قمع، بین المذاہب ہم آہنگی، خواتین کی خودمختاری اور مشترکہ اسلامی لائحہ عمل کے حوالے سے نکات شامل ہیں۔
اسلامی تنظیم کے ذیلی ادارے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں جن میں اسلامی ترقیاتی بینک، اسلامی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ (آئیسکو) اور دیگر شامل ہیں۔
تنظیم نے کشمیر کے حوالے سے بھی اس سال جون میں یوسف الدوبے کو خصوصی ایلچی نامزد کیا تھا۔

شیئر: