Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مشرف کی سزا پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے‘

پرویز مشرف کے خیال میں اونچے عہدوں پر فائز افراد نے ان کو ’ٹارگٹ‘ کیا۔ فوٹو اے ایف پی
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی سزائے موت کے تفصیلی فیصلے میں پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی جانب سے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو اپنے حق میں دلائل دینے کا موقع دیا گیا تھا، وہ بارہا بلانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
جمعرات کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ 
سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے منگل کو جنرل مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف پر آئین سے غداری کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔
جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ’استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو ملک سے فرار کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
خصوصی عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں لکھا کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں ہر جرم میں پھانسی دی جائے۔

خصوصی عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں لکھا کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں ہر جرم میں پھانسی دی جائے: فوٹو اے ایف پی

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی طرف سے لکھے گئے فیصلے کے پیرا 66 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ’ پوری کوشش کریں کہ مفرور مجرم کو پکڑیں اور قانون کے مطابق سزا یقینی بنائیں۔ اگر انہیں مردہ پایا جائے تو بھی ان کی میت کو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد لایا جائے اور اسے تین دن کے لیے لٹکایا جائے۔‘
اگلے پیرا میں اس سخت حکم کی وضاحت کرتے ہوئے جسٹس وقار نے لکھا ہے کہ’ فیصلے کے اس حصہ کے بارے میں کہیں نہیں لکھا گیا ہے تاہم چونکہ اس نوعیت کا پہلا کیس ہے اور  سزائے موت مجرم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں سنائی گئی ہے اس لیے سزا پر عمل درآمد ان کی وفات کی صورت میں بھی کیا جائے اور ان کی وفات کی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھانسی کیسے دی جائے تو اس چیز کی وضاحت گذشتہ پیرا میں کی گئی ہے۔‘
تاہم بینچ میں موجود ان کی ساتھی جج  جسٹس شاہد کریم نے لاش کو لٹکائے جانے کے حوالے سےجسٹس وقار سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے خیال میں مجرم کو سزائے موت دینا کافی ہے۔ البتہ انہوں نے بھی یہ لکھا ہے کہ اس جرم کی نوعیت عام جرائم سے مختلف ہے اس لیے اس کی سزا بھی انتہائی سخت ہونی چاہیے۔
آئینی ماہرین کے مطابق تین میں سے دو ججوں کی مختلف رائے کی بنا پر پیرا 66 کی حیثیت جسٹس وقار کی زاتی رائے ہی رہے گی اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔
قانونی ماہر اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ چونکہ جسٹس ںذراکبر اور جسٹس شاہد کریم بینچ کے سربراہ جسٹس وقار کی میت کو پھانسی لگانے والی رائے سے متفق نہیں ہیں اس لیے قانون کے مطابق پیرا 66پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور وہ صرف زاتی رائے ہی رہی گی تاہم مجرم کو سزائے موت پر چونکہ دونون ججز متفق ہیں تو سزائے موت کا فیصلہ برقرار ہے۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ پیرا 66 انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس سے پاکستان کی عالمی برداری میں بدنامی ہو گی۔
پرویز مشرف نے عدالتی فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے وکیل کو حق میں دلائل پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، تاہم انہوں نے عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے امید کی تھی کہ عدلیہ ان کو انصاف فراہم کرے گی۔
دوسری جانب نے افواج پاکستان نے بھی فیصلے پر ’شدید غم و غصے‘ کا اظہار کیا تھا۔ 
افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف آرمی چیف، چئیر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدرِ پاکستان رہے ہیں اور انہوں نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی ہے، وہ کسی صورت غدار نہیں ہو سکتے۔
 

2013 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ججوں کو نظر بند کرنے پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان  کیا گیا تھا۔

شیئر: