Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردوان کا اصل حریف کون ہے؟

ترک صدر خود کو علاقے کا رہنما بنانے کے خواہشمند ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر
ترک حکومت نے لیبیا میں اب تک اپنا ایک بھی فوجی نہیں بھیجا۔ اس کے باوجود ترک حکومت لیبیا میں ہونے والی جنگ میں روزانہ کی بنیاد پر دخل انداز نظر آ رہی ہے۔
ترک حکومت لیبیا کی وفاقی حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ طرابلس کا دفاع بڑی مشکل سے کر رہی ہے۔ ترکی آٹھ برس سے لیبیا کی جنگ میں برابر کا شریک ہے۔ تب سے یہاں خانہ جنگی کی شروعات ہو ئیں۔ ترکی کو لیبیا میں ہونے والی ہر تبدیلی سے دلچسپی ہے۔ ترک حکومت کا جواز یہ ہے کہ وہ وہاں بھاری سرمایہ کاری کیے ہوئے ہے۔ 
 انقرہ 2011 میں معمر قذافی کی حکومت کے سقوط سے پہلے سے لیبیا کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہو ئے ہے۔ جب ترک صدر رجب طیب اردغان نے گزشتہ ہفتے نئی آبدوز کا افتتاح کیا اور لیبیا تک مار کا انتباہ دیا تب اہل لیبیا نے اپنے ساحل کے سامنے موجود ترکی کے ایک جہاز پر قبضہ کرلیا تھا۔

اردغان دس لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کو سرحدوں پر آباد کرنے کا خطرناک منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔  فوٹو: ٹوئٹر

ہر جگہ لڑائی اور دخل اندازی کا ایک اور سبب ذاتی نوعیت کا ہے۔ ترک صدر رجب طیباردوغان خود کو علاقے کا رہنما بنانے کے خواہشمند ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا ملک ترکی علاقے کی محوری طاقت ہے۔
رجب طیباردوغان کے عہد صدارت کے دوران ترکی کا منصوبہ علاقے کی سب سے بڑی طاقت بننا تھاتاہم فتوحات سے کہیں زیادہ ناکامیاں ترکی کے حصے میں آئیں۔
 ترکی کو سب سے زیادہ جھٹکا اپنے اتحادی محمد مرسی کی حکومت کے سقوط کی صورت میں ہوا ہے۔
ترکی کو مصر میں الاخوان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے پر بڑا جھٹکا لگا تھا۔ ایک برس کے اندر اخوان کا اقتدار ختم ہوگیا۔ رجب طیباردوغان مصر پر اقتدار کی بازیابی کے لیے اب بھی کوشاں ہیں۔ اسی لیے وہ استنبول میں الاخوان کی قیادت کی میزبانی کررہے ہیں۔

ترک حکومت لیبیا کی وفاقی حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔  فوٹو: ٹوئٹر

ترکی کو دوسری ناکامی سوڈان میں ہوئی جہاں اس کے اتحادی عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ تین عشروں سے سوڈان کی حکمراں جماعت الاخوان بھی شکست کھا گئی۔ سوڈان میں نئی حکومت عوامی تحریک کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ نئی حکومت نے ترکی کے ساتھ فوجی تعاون کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 
نئی حکومت نے جزیرہ سواکن کوکرائے پر دینے کا معاہدہ بھی منسوخ کردیا۔ ترکوں نے یہ جزیرہ عمر البشیر کی حکومت سے حاصل کیا تھا۔ یہاں وہ اپنا فوجی اڈہ بنانا چاہتے تھے تاکہ مصر کے قریب اور سعودی ساحلوں کے سامنے اپنا فوجی وجود مسلط کرسکیں۔
خلیج میں بھی ترکی موجود ہے۔ قطر میں پانچ ہزار ترک فوجی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ انہیں فضائیہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ قطر کی فضاﺅں پر امریکی افواج کا کنٹرول ہے۔ قطر میں دو فوجی اڈوں سے امریکہ کاقطر کی تمام فضاﺅں پر کنٹرول ا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی بحران میں ترک فوج کا کردار ثانوی نوعیت کا ہوگیا ہے۔
شام میں بھی ترک افواج موجود ہیں۔ وہاں ترک افواج کے عسکری آپریشن متحرک صحرا کی مانند ہیں۔ دو برس قبل ترکی نے وہاں ’زیتون کی شاخ‘ کے نام سے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ ترکی کا مقصد مسلح کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو قابو کرنے کا تھا اور اب بھی ہے۔ کرد ترکی کے اصل دشمن ہیں۔ ترکی نے اسی غرض سے روس، ایران اور شام کے ساتھ متعدد معاہدے کیے اور اپنے کئی مطالبات سے دستبردار ہوا ہے۔

ترک حکومت نے لیبیا میں اب تک اپنا ایک بھی فوجی نہیں بھیجا۔ فوٹو: ٹوئٹر

شام میں صورتحال اس بات سے مزید پیچیدہ ہوگئی کہ رجب طیباردوغان دس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو سرحدوں پر آباد کرنے کا خطرناک منصوبہ نافذ کرنے جارہے ہیں۔ 
 اردگان کا کہنا ہے کہ وہ شامی پناہ گزینوں کو ترکی کے اندرونی علاقوںسے زبردستی سرحدی علاقوں میں منتقل کریں گے۔ انہیں ایسے علاقوں میں آباد ہونے کے لیے مجبور کریں گے جو کردوں کے حصار میں ہیں۔ 
رجب طیباردوغان علیحدگی پسند کردوں کے حملوں سے ترک علاقوں کے تحفظ کے لیے شامی پناہ گزینوں کو انسانی دیوار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ 
ترک صدر کا کہنا ہے کہ وہ شام کے دس علاقوں اور 140قریوں کو دس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کی آبادی کے لیے استعمال کریں گے۔ یہ پناہ گزیں موجودہ خطرناک بدامنی کے حالات میں ترکی کے اندرونی علاقوں سے وہاں منتقل ہونے پر راضی نہیں ہیں۔
ترکی افغانستان میں بھی امریکی افواج کے ساتھ موجود ہے۔ ترک افواج نے 2001 میں افغانستان پر لشکر کشی مہم میں امریکی افواج کا ساتھ دیا تھا اور اب بھی وہ طالبان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان سے لیبیا تک ترک افواج کی تعناتی ترکی کو واقعتاعلاقائی طاقت بنانے کے لیے کافی ہے؟
غالب گمان یہ ہے کہ اس کے پیچھے رجب طیباردوغان کی قیادت کی ذاتی خواہش کا بڑا دخل ہے۔ ایسا لگتاہے کہاردوغان کے یہ جذبات ہی انہیں اقتدار سے باہر کردیں گے یا بیرونی دنیا میں ان کی فنڈنگ کا خاتمہ کر ڈالیں گے۔

ترکی کی معیشت انحطاط کی جانب جا رہی ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر

اردغان کی ذاتی خواہشات وہ بھی ہیں جن کاو ہ برملا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ بات بڑے فخر سے بار بار دہراتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کی ایک تاریخ ہے۔ وہ عثمانی سلاطین پر بنائی جانے والی فلموں کو فنڈ بھی دے رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ ’ارطغرل‘ سیریل کے بعض اداکار پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ فوٹو سیشن ہوتے ہیں۔
 اردغان کی علاقائی اور اسلامی محاذ کے لیے قیادت کے تصور کی مارکیٹنگ کرتے ہیں۔اردوغان کے یہ وہ خواب ہیں جو ان سے قبل ایران کے حکمرانوں نے دیکھے تھے کامیاب نہیں ہوئے۔ عراقی صدر صدام حسین یہ خواب لیکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگر قطر ان کی مالی اعانت بند کردے تو ایسی صورت میں آرزوﺅں کی تکمیل کا یہ سفر خود بخود ہی رک جائے گا۔ 
ترک صدرنے امن پسند ملک ترکی کو فوجی طاقت میں تبدیل کرنے کا چکر چلایا ہے حالانکہ وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ترکوںنے سب سے بڑی آخری جنگ اب سے سو برس قبل بلقان میں لڑی تھی۔
اردگان ، مصر ، سعودی عرب، لیبیا اورماسکو پر الزام تراشی کررہے ہیں جبکہ ان کے حقیقی حریف استنبول ، انقرہ اور خود ان کی پارٹی کے اندر ہیں۔ ان کی پارٹی کے قائدین اور اتحادی ان سے بغاوت کر گئے ہیں اور آئندہ انتخابات میں ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔
رجب طیباردوغان کے خطرناک ترین حریف ترک عوام ہیں۔ ترکی اپنے بیشتر اثاثے کھو چکا ہے۔ لیرا کی قدر گر چکی ہے۔ ترکی کی معیشت انحطاط کی جانب جارہی ہے۔ان میں سے بیشتر ناکامیوں کی ذمہ داری رجب طیباردوغان کے ذاتی نوعیت کے فیصلوں کے سر جاتی ہے۔

شیئر: