Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی طالبات ٹوئٹر پرکیا کر رہی ہیں؟

94 فیصد سعودی طالبات ٹوئٹرپر رجسٹرڈ ہیں۔ فوٹو: الشر ق الاوسط
کنگ سعود یونیورسٹی ریاض نے تازہ ترین جائزے کے حوالے سے بتایا ہے کہ 94 فیصد سعودی طالبات ٹوئٹرپر رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 36 فیصد کا دلچسپ مشغلہ خواتین کے مسائل ہیں۔
الشرق الاوسط کے مطابق کنگ سعود یونیورسٹی کا جائزہ سکالر خاتون نورة المطرفی نے تیار کیا ہے۔ اس کے ذریعے ٹوئٹر سے سعودی طالبات کی وابستگی اور ان کے رجحانات کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔
جائزہ نگارسکالر کے مطابق سعودی خواتین کے مسائل میں سب سے زیادہ بحث ڈرائیونگ کے مسئلے پر کی گئی ہے۔

36 فیصد سعودی طالبات کا دلچسپ مشغلہ خواتین کے مسائل ہیں۔فوٹو: ٹوئٹر 

 سعودی طالبات کا خیال ہے کہ ٹوئٹر نے خواتین کی ڈرائیونگ کے مسئلے کو حل کرانے میں دلچسپی لی ہے۔ دوسرا مسئلہ سعودی خواتین پر خاندانی سرپرستی کا چھایا رہا۔
اس کے بعد خواتین سے متعلق روزگار کے مسائل تیسرے نمبر پر رہے۔ چوتھا نمبر وطن سے خواتین کے غیر مشروط سفر کے حوالے سے تھا۔ پانچواں مسئلہ حجاب اور مخلوط معاشرے کی بابت چھایا رہا۔
خواتین کے خلاف تشدد، کلیدی عہدوں پر خواتین کے تقرر، طلاق، خلع، کم عمری کی شادی، چھیڑ خانی، انتخابات کے مسائل، سیاسی شرکت، میراث اور گواہی کے مسائل پر بحث مباحثہ بھی جاری رہا۔
المطرفی کا کہناہے کہ جائزے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ٹوئٹر پر سماجی رابطے کا نیٹ ورک سعودی خواتین کے بیشتر مسائل میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے۔

جائزے میں ریاض کی300 طالبات کو شامل کیا گیا تھا۔ فوٹو: ٹوئٹر 

 نورة المطرفی نے کہا ’ٹوئٹر نے خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور انہیں حل کرنے کے سلسلے میں آگہی پیدا کی ہے۔‘
’56 فیصد سعودی طالبات کا خیال ہے کہ خواتین کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے ٹوئٹرپر جاری بحث میں نظر انداز کیا گیا ہو۔‘
جائزے میں ریاض شہر کی 6 فیکلٹیوں میں زیرتعلیم 300 طالبات کو شامل کیا گیا تھا۔ ان میں سے 76.4 فیصد ٹوئٹر پر حقیقی نام سے اپنا اکاﺅنٹ کھولے ہوئے ہیں جبکہ 23.6 فیصد فرضی ناموں سے موجود ہیں۔ 
نورة المطرفی کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی خواتین کی بڑی تعداد نہ صرف ٹوئٹر پر موجود ہے وہ حقیقی ناموں کے ساتھ سماجی رابطہ جات میں حصہ لینے کے حوالے سے بھی پرعزم ہیں۔
ٹوئٹرپر فرضی ناموں سے اکاﺅنٹ کھولنے کے حوالے سے جائزہ نگار کا کہنا ہے’39 فیصد خواتین اظہار رائے کے سلسلے میں مزید آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ اپنے گھر والوں اور واقف کاروں کی نگرانی سے بچنے کے لیے فرضی نام استعمال کررہی ہیں۔ ان کاتناسب 21.7 فیصد ہے۔‘
’18.8فیصد فرضی ناموں کا استعمال چھیڑ چھاڑ سے بچنے کے لیے کررہی ہیں۔ 5.8 فیصد قدامت پسندی اور خواتین سے متعلق روایتی
 سوچ سے متاثر ہیں۔‘

شیئر: