Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین صحافی کیا سوچتی ہیں؟

خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں میں اُن کے لیے کوئی آپشن نہیں تھا، فائل فوٹو
سعودی عرب کی تین خاتون صحافیوں نے سعودی میڈیا فورم میں ’سعودی وومن ان میڈیا: پریزنس اینڈ پریزینٹیشن‘ کے عنوان سے ایک سیشن کے دوران قلمی ناموں سے لکھنے سے لے کر مناسب کپڑے پہننے یا مرد ساتھیوں کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ نہ جاننے سے متعلق اپنی سابقہ ساتھیوں کی میڈیا میں کام کرنے سے متعلق پریشانیوں کا ذکر کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق پینل میں شامل لکھاری ڈاکٹر فوزیہ البکر نے کہا ’ماضی میں بہت سارے خدشات تھے۔‘
البکر کے مطابق ’اُس وقت خواتین کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ان کے پاس سعودی معاشرے کے لیے قابل قبول بات تاریخ یا علم نہیں تھا جس کی وجہ سے خواتین پریزینٹرز نے اس شعبے میں قدم رکھنا چھوڑ دیا۔

بعض مرد، صحافی خواتین کے قلمی ناموں سے لکھتے تھے، فوٹو: عرب نیوز

تاہم البکر کا کہنا تھا کہ ’سعودی حکومت نے ہمیشہ خواتین کے میڈیا میں آنے کی حوصلہ افزائی کی۔ 1970 کے عشرے میں شاہ فیصل سب سے پہلے ریڈیو کے ذریعے اس فیلڈ میں ابھرنے والی خواتین کی مدد کرنے والے تھے۔‘
سعودی عرب میں مرد صحافی بھی خواتین صحافیوں کے حامی تھے جو اپنے ساتھیوں کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد دینے کے لیے خواتین کے قلمی ناموں سے لکھتے تھے، جیسے احمد سیبائی جنھوں نے’حجازی لڑکی‘ کے نام سے وائس آف حجاز کی اشاعت میں لکھا تھا۔
البکر نے ملک کی ترقی میں خواتین کے گاڑی چلانے، پاسپورٹ جاری کرنے اور افرادی قوت میں ان کے فعال کردار کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’آج ہم پر ایک تاریخی ذمہ داری ہے۔‘ 
سعودی صحافی امیمہ الخمیس نے کہا کہ ’سعودی عرب میں خواتین کا میڈیا میں وجود پوشیدہ تھا۔ ابتدا میں ان کی موجودگی کو قبول نہیں کیا گیا تھا لیکن بتدریج یہ وجود میں آیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میڈیا کی دنیا کی متحرک اور مساوی حیثیت کا رکن بننے کے ہدف میں چھوٹے چھوٹے اقدامات کی طویل مدت میں بہت اہمیت ہوتی ہے۔‘

سعودی خواتین صحافیوں کے مطابق آج اُن پر ایک تاریخی ذمہ داری ہے، فائل فوٹو

امیمہ الخمیس نے بتایا کہ خواتین کے سیکشن کے بارے پہلا نیوز آوٹ لیٹ 1989 میں ریاض کے ایک اخبار میں تھا۔ وہ وقت جب صحافت یا میڈیا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے کوئی آپشن نہیں تھا۔ 
انھوں نے کہا کہ ’یقیناً وہاں مشکلات اور رکاوٹیں تھیں لیکن وہ مستقل جدوجہد کرتے رہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’ چیلنجز حقیقی اور بڑے ہیں لیکن آگے صرف مقامی طور پر یا علاقائی طور پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر بڑھنا چاہیے۔‘
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی محکمہ اطلاعات کی ڈائریکٹر مھا عقیل کے مطابق مغربی میڈیا میں سعودی خواتین کو غلط طور پر پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’طویل مدت تک سعودی خواتین کی آواز غائب تھی لہٰذا اب ہمیں بات کرنا ہو گی۔ وژن 2030 نے ہمیں اس قابل بنا دیا ہے۔ برسوں کی عدم موجودگی کو تبدیل کرنا مشکل ہے لیکن یہ ضرور ہونا چاہیے۔‘

خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: