Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بالی وڈ پاکستان کے خلاف فلمیں کیوں بناتا ہے، عامرخاکوانی کا کالم

بجرنگی بھائی جان اچھی خاصی بڑے بجٹ کی فلم تھی، مگر بدترین بلنڈرز سے بھری تھی (فوٹو: کوئی موئی)
ایک ویب چینل پر اینکر نے یہ سوال پوچھا کہ پاکستان کےخلاف بالی وڈ فلمیں کیوں بناتا ہے؟ ان کا اشارہ حالیہ بالی وڈ مووی دھورندھر سے تھا، جوکچھ دن پہلےریلیز ہوئی اور انڈیا میں ہٹ ہو گئی ہے۔
میرا بے ساختہ جواب تھا کہ یہ اہم سوال ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ بالی وڈ پاکستان کے حوالے سے ایسی بری، ناقص اور غیرحقیقی فلمیں کیوں بناتا ہے؟ آخر یہ لوگ پاکستان کے بارے میں جہالت کی حد تک بے خبر اور لاعلم کیوں ہیں؟ انہیں یہ تک اندازہ نہیں کہ پاکستان میں لوگ کیسے رہتے ہیں، کیا لباس پہنتے ہیں، ان کا انداز گفتگو کیا ہے، دکانوں پر کس سکرپٹ میں لکھا ہوتا ہے۔
 بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ویسے تو تقریباً ہر انڈین فلم میں پاکستانی مسلمان کردار آنکھوں میں سرمہ تھوپے سر پر جالی دار ٹوپی پہنے، کاندھوں پر ڈبی دار رومال ڈالے ملتے ہیں۔ یہ کردار خواہ پنجابی ہوں، پشتون یا بلوچ وغیرہ، سب دوسرے کو میاں کہہ کر مخاطب کرتے، لکھنوی طرز میں آپ جناب کے تکلفات برتتے ہیں۔ ک کو کھ کہتے ہیں یعنی خان صاحب کو کھان صاحب، فیصل کو فیضل یا فیجل وغیرہ۔ جو بنیادی معلومات کسی بھی پاکستانی رائٹر کو مناسب سا معاوضہ دے کر ٹھیک کرائی جا سکتی ہیں، بالی وڈ فلمساز وہ بھی نہیں کرا پاتے۔ آج کل تو چیٹ جی پی ٹی کا زمانہ ہے، اس سے ہی غلطیاں ٹھیک کرالی جائیں، مگر نہیں، بالی وڈ والوں نے پاکستان کے بارے میں بری اور بیکار گھٹیا سی فلمیں بنانے کی قسم کھا رکھی ہے۔
بجرنگی بھائی جان ایک مشہور بالی وڈ فلم ہے، جس میں سلمان خان ہیرو تھے، نواز الدین صدیقی نے بھی کام کیا۔ اچھی خاصی بڑے بجٹ کی فلم تھی بزنس بھی اس نے ٹھیک ٹھاک کیا۔ فلم مگر بدترین بلنڈرز سے بھری تھی۔ ایسے نقائص اور خامیاں کہ ان کا پتہ چل جانے پر کسی دوسرے ملک میں فلم ڈآئریکٹر کا وہ مذاق اڑایا جاتا کہ آئندہ زندگی بھر وہ فلم سٹوڈیو میں داخل نہ ہوپاتا۔
اندازہ لگائیں کہ ڈائریکٹر کو یہ تک نہیں معلوم ہوسکا کہ نارووال کا موسم کیسا ہے؟ انہوں نے نارروال، شکرگڑھ میں برف باری کرا دی جہاں پچھلے سو سالوں میں نہیں ہوئی۔ لوگ وہ موٹے کشمیری لباس پہنے پھرتے تھے جیسے سری نگر کے شدید شردی موسم میں پہنے جاتے ہیں۔ ایک کلک سے گوگل پر ناروال کا موسم چیک کیا جا سکتا تھا کہ سردیوں میں کس حد تک سردی ہوجاتی ہے۔
فلم میں ایک انوکھے روٹ سے سلمان خان کو داخل کرایا جاتا جو کہ ایک کشمیری بچی کو اس کے آبائی گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔ ڈائریکٹر نے کسی سے سن رکھا ہوگا کہ خانیوال نام کا بھی کوئی شہر ہے جوسندھ سے لاہور جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے۔ ایسے شہزادے ہیں کہ خانیوال لکھنے کے بجائے ہندی بول چال کے انداز میں ’کھانے وال‘ لکھا دیا۔ اتنی عقل تو ہونی چاہیے تھی کہ پتہ کر لیتے پاکستان میں خ کو کھ نہیں کہا جاتا۔ اور بھی بہت سی غلطیاں بلکہ بلنڈرز تھے۔
منا بھائی ایم بی بی ایس میں ایک سکوٹر دکھاتے ہیں جس کے ساتھ ایک دم چھلا سا اٹیچ ہوتا ہے، جس پر ایک اور سواری بیٹھ سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ عجیب وغریب سواری کبھی آئی نہ آنے کا کوئی امکان ہے۔ بجرنگی بھائی جان کے ڈائریکٹر نے وہ انوکھی وضع کا رکشہ سا پاکستان کی سڑکوں پر دوڑا دیا۔

مجھے یوں لگتا ہے کہ لیاری کے حوالے سے کسی اوورسیز پاکستانی گھوسٹ رائٹر کی خدمات حاصل کی گئیں (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

اب اس سے  ملتی جلتی غلطیاں تازہ ترین فلم دھورندھر میں کی گئی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ بجرنگی بھائی جان کی طرح فلم دھورندھر بھی انڈیا میں ہٹ ہو گئی ہے اور اپنے بجٹ سے زیادہ بزنس کر چکی ہے، مزید کمانے کا امکان ہے۔ دیگر پاکستان مخالفوں کی نسبت اس کا سکرپٹ قدرے مضبوط اور کسی حد تک نیا پن لیے ہوئے ہے۔ بالی وڈ میں انڈر ورلڈ کو اس انداز میں پہلے کبھی پیش نہیں کیا گیا تھا، اسی وجہ سے یہ سٹائل پسند کیا گیا اور ہٹ گیا۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ لیاری کے حوالے سے کسی اوورسیز پاکستانی گھوسٹ رائٹر کی خدمات حاصل کی گئیں، اسی وجہ سے لیاری گینگ وار کی کہانی فلم پروڈیوسر کو مل گئی۔ تاہم اس رائٹر کو یقینی طور پر فلم پروڈکشن میں شامل نہیں کیا گیا، ورنہ کئی غلطیاں دور ہوجاتیں۔ وہ رائٹر بھی شاید لیاری گینگ وار سے اخباری سطح پر واقف تھا، اسے لیاری کی بول چال کا اندازہ نہیں تھا۔
لیاری کا ایک خاص کلچر، بول چال اور ڈکشن ہے۔ جب آپ لیاری پر فلم بنا رہے تھے تو بہتر ہوتا کہ لیاری کے کسی جم پل والے شخص یا رائٹر کو ہائر کرتے، اسے کم از کم سکرپٹ ہی دکھا دیتے، اس سے چند ایک مکالمے لیاری کی مخصوص بول چال میں لکھوا لیتے۔ ایک آدھ کردار ہی لیاری کے لہجے میں دو چار ڈائیلاگ بول دیتا تو کسی حد تک اصل کا گمان ہوتا۔
رحمان ڈکیت جو بعد میں رحمن بلوچ کہلایا اور جب الیکشن لڑنے کا سوچا تو سردار رحمان بلوچ بن گیا، اسے فلم میں بلوچ نیشنلزم سے جوڑا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ رحمان ڈکیت بلوچ نیشنلسٹوں اور علیحدگی پسند تنظیموں میں مقبول ہے۔ یہ ایک سراسر بے بنیاد اورغلط بات ہے۔ رحمان بلوچ صرف لیاری کی حد تک ہی محدود تھا، وہاں اس نےعام لوگوں کے کچھ کام وام کیے، ان میں پیسہ وغیرہ بانٹتا تھا، جیسا کہ ایسے ڈاکو کیا کرتے ہیں، تو عام لوگوں میں کچھ حمایت کا تاثر تھا، مگر لیاری کی بلوچ انٹلکچوئل کلاس اسے سخت ناپسند کرتی تھی اور بلوچ کے بجائے ایک ڈاکو اور کریمنل ہی سمجھتی تھی۔
مزے کی بات ہے کہ فلم میں انڈین انٹیلی جنس کا کور ایجنٹ جو رحمان ڈکیت کے گروہ میں شامل ہونے آیا، اس نے اپنا نام فیصل خان مزاری کہا اور وہ بلوچی بولنے والا اور بلوچستان کے آپریشن متاثرہ علاقوں کا بن کر گیا تھا۔

فلم میں اکشے کھنہ نے نسبتاً بہتر اداکاری کی، اس کی شکل بھی کسی حد تک ملتی تھی (فوٹو: کوئی موئی)

کوئی بھی تھوڑی سی کامن سینس اور معلومات رکھنے والا رائٹر کبھی نام  فیصل مزاری نہ رکھتا۔ اس لیے کہ مزاری قبیلہ لیاری میں تو بالکل ہی نہیں اور یہ بلوچستان کے بجائے ڈی جی خان میں مقیم ہے اور مزاری بلوچی کے بجائے پبلک میں سرائیکی زبان بولتے ہیں۔
ڈی جی خان میں مزاری، کھوسہ، لغاری وغیرہ بلوچ قبائل تو ہیں، مگر بلوچی کے بجائے سرائیکی بولتے ہیں اور سرائیکی قومیت کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا لہجہ بھی سرائیکی ہوگیا ہے، مزاری ہوں یا دریشک، کھوسے، لغاری سردار ان کے لب ولہجے سے ان کے سرائیکی ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔
خیر سے فلم میں انڈین انٹیلی جنس ایجنٹ جو اداکار رنویر سنگھ تھا، اس کا لہجہ بلوچی تو خیر کیا ہونا تھا، سرائیکی بھی نہیں تھا۔ اسی طرح فلم میں لیاری کا ایم این اے جمیل جمالی تھا، جمالی قبیلے کا سرے سے لیاری میں وجود ہی نہیں رکھتا۔ تھوڑی سی مشاورت کر لی جاتی تو کم از کم بلوچ قبائل کے نام تو ڈھنگ کے رکھے جاتے، لیاری سے ہم آہنگ بلوچ قبائلی نام۔   
فلم میں اکشے کھنہ نے نسبتاً بہتر اداکاری کی، اس کی شکل بھی کسی حد تک ملتی تھی، مگر وہ بھی لیاری کا بلوچ ہرگز نہیں لگا۔ وہ بھی میاں اور جناب کہتا رہا۔ رحمان بلوچ ایک سفاک اورکسی حد تک اجڈ سا آدمی تھا۔ اکشے کھنہ تو ایک شہری قسم کا ڈان لگا، وہ لیاری کا ڈان نہیں تھا۔ تاہم اندھوں میں کانا کے مصداق وہ دوسروں سے بہترپرفارم کر گیا، اسی لیے پسند کیا گیا۔ فلم میں جو گانا بلوچی سمجھ کر ڈالا گیا وہ بھی لیاری کا نہیں اور نہ ہی بلوچستان کا کوئی لوک گیت، وہ تو عمانی گیت ہے جس کا بلوچ نیشنل ازم سے کوئی تعلق اور نہ ہی بلوچ رہتل سے جڑت۔ سنجے دت نے ایس پی چودھری اسلم کا کردار ادا کیا۔ سنجے دت کی شکل بالکل ویسے لگ رہی تھی، مگر اسے بھی اسلم خان کے ویڈیو کلپ دیکھ لینے چاہیے تھے، تاکہ اسی انداز میں اسلحہ پکڑتا اور چلاتا۔ سنجے دت ویسے نہیں جانتا ہو گا کہ چودھری اسلم پنجابی نہیں تھا، اس کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا، چودھری اس کی بے نیازی اور سرپھرے ہونے کی وجہ سے کہا جانے لگا جو بعد میں نام کا حصہ بھی بن گیا، ورنہ وہ پنجابی نہیں تھا۔

بالی وڈ میں بی جے پی کے برسراقتدارآنے کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے (فوٹو: زی نیوز)

اس فلم میں جس طرح لیاری گینگ ورلڈ کو آئی ایس آئی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی وہ بھی بھونڈی تھی۔ کراچی کا انڈرورلڈ الگ ہے جس میں شعیب خان وغیرہ کا کردار اہم تھا، اس کا دھندا بھی کچھ اور تھا، لیاری گینگ وار کی الگ کہانی اور الگ دنیا۔ ایسا نہیں تھا کہ جس کا لیاری پر کنٹرول، اس کا کراچی پر کنٹرول۔ فلم میں یہ تاثر دیا گیا، جو کہ بالکل غلط اور غیرحقیقی تھا۔ جس انداز سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو دکھایا گیا اوران کی مظلومیت کو دکھانے کی کوشش کی گئی، وہ بھی بچکانہ تھی۔ اس سے مگر اندازہ ہوتا ہے کہ انڈین خفیہ ادارے کیا سوچ رہے ہیں؟
سوال پھر وہی ہے کہ آخر بالی وڈ والے ہر کچھ عرصے کے بعد ایک سے ایک نئی پاکستان مخالف فلم کیوں بنا ڈالتے ہیں؟ ایسا بھی نہیں کہ ایسی ہر فلم ہٹ ہوتی ہے۔ کئی پاکستان مخالف فلمیں سپر ہٹ بھی ہوئیں، مگر بہت سے فلاپ اور ڈیڈ فلاپ بھی ہوئیں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ایسی ناکام فلموں کی فنانسنگ بھی ’کہیں اور‘ سے کرائی جاتی ہے تاکہ نقصان پورا ہو سکے۔
بالی وڈ میں گذشتہ 10 سے 11 برسوں میں خاص کر بی جے پی کے برسراقتدارآنے کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ دو طرح کی خاصی فلمیں بنی ہیں، ایک تو ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ پاکستان مخالف، دوسری مسلم مخالف رجحانات پر مبنی جس میں ماضی کے مسلمان حکمرانوں کے کردار کو مسخ شدہ حالت میں پیش کرنا بھی شامل ہے۔ جیسے ’پدماوت‘ میں علاوالدین خلجی کا مذاق اڑایا گیا، ’ابدالی‘ میں احمد شاہ ابدالی کا مضحکہ اڑایا گیا۔ کہیں اورنگ زیب کو نشانہ بنایا گیا ،ایسی کئی اور مثالیں ہیں۔
ہمارے ہاں عام طور سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ انڈیا میں پاکستان مخالف فلمیں بنتی ہیں، یہ چیز جزوی درست ہے۔ اس لیے کہ انڈیا میں بالی وڈ فلم انڈسٹری جہاں ہندی فلمیں بنتی ہیں اور جن کا زیادہ دائرہ کار نارتھ انڈیا میں ہے، مگر ساؤتھ انڈیا کی فلم انڈسٹری بھی خاصی تگڑی ہے اور اس کے سٹارز تو اب انڈیا بھر میں مشہور ہوچکے ہیں۔

ساؤتھ انڈین سماج شمالی انڈین کے معاشرے سے زیادہ مختلف، نسبتا زیادہ معتدل، سیکولر اور جمہوری ہے (فوٹو: کوئی موئی)

ساؤتھ انڈیا میں تمل، تیلگو، ملیالم اور کنٹر چاروں زبانوں میں فلمیں بنتی ہیں اور ایک طرح سے ان کی الگ الگ انڈسٹری ہے تاہم انہیں ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری کہہ دیا جاتا ہے، ان کا مزاج بالی وڈ سے یکسر مختلف ہے۔ مکرم نیاز ہمارے ایک ساؤتھ انڈین فیس بک فرینڈ ہیں۔ یہ حیدرآباد (تلنگانہ)میں مقیم ہیں، افسانہ نگار اور فلم ریویو رائٹر ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر خاصی ریسرچ کر کے گذشتہ 11 برسوں میں بالی وڈ اور ساؤتھ انڈیا کی ہر برس ٹاپ فائیو فلموں کا جائزہ لیا ہے۔ یعنی 55 بالی وڈ موویز اور 55 ساوتھ انڈین موویز کا تجزیہ کیا گیا۔ اس ریسرچ کے نتائج دلچسپ ہیں۔ بالی وڈ میں کئی ہٹ فلمیں پاکستان مخالف بنیں مگر ساؤتھ انڈیا میں ایک بھی پاکستان مخالف فلم نہیں بنی یا مسلم مخالف رجحانات پر فلم نہیں بنائی گئی۔ ساؤتھ انڈیا کی ٹاپ فلمیں جیسے ’پشپا‘، ’پشپا ٹو‘، ’باہوبلی‘، ’باہوبلی ٹو‘، ’کانتارا‘، ’آر آر آر‘، ’کے جی ایف‘، ’کے جی ایف چیپٹر ٹو‘، ’وکیل صاحب‘، ’ماسٹر‘ وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بہت دلچسپ ہےکہ ساؤتھ انڈین سماج شمالی انڈین کے معاشرے سے زیادہ مختلف، نسبتا زیادہ معتدل، سیکولر اور جمہوری ہے۔ مکرم نیاز کے الفاظ میں ’جنوبی ہند کے سینما میں پاکستان مخالف بیانیہ تقریباً ناپید ہے۔ مسلم مخالف رجحان نہایت محدود اور بالواسطہ نوعیت کا ہے۔ زیادہ زور مقامی ثقافت، زمین، خاندان، سماجی کشمکش اور انسانی رشتوں پر دیا گیا ہے۔ جنوبی ہند سنیما تاریخی طور پر حسب ذیل موضوعات پر توجہ مرکوز کرتا ہے: ذات، طبقہ، زبان کی شناخت، ریاست بمقابلہ مرکز، بدعنوانی، مقامی جبر وغیرہ۔ بطور مثال تمل سینما (دراوڑی سیاست)، ملیالم سینما (طبقہ جاتی تفریق، حقیقت پسندی)، کنڑ سینما (زمین، شناخت)، تلگو سینما (طاقت، جاگیرداری نظام)۔ جنوبی ہند سینما کے لیے پاکستان ایک بیرونی ’دیگر‘ ہے، جبکہ جنوبی ہند سینما اندرونی سماجی تنازعات کو ترجیح دیتا ہے۔‘
ہمارے ساؤتھ انڈین قلم کار اور فلم ریویو رائٹرمکرم نیاز نے دلچسپ تھیسس پیش کیا کہ ’چونکہ تقسیمِ ہند (1947) کے صدمے نے پنجاب، اترپردیش، دہلی، سندھ/گجرات، بنگال کو براہ راست متاثر کیا۔ جنوبی ہندوستان جغرافیائی اور سماجی طور پر بہت دور تھا۔ تقسیم کے وراثتی اجتماعی عناصر جیسے: تقسیم کا تشدد، پناہ گزینوں کی نقل مکانی، سرحدی صدمہ جنوبی ہند میں محسوس نہیں کیے گئے، لہٰذا جنوبی ہند کے فلم بینوں کو اس بیانیہ کی تحریک وراثت میں نہیں ملتی ہے۔‘

سرکار کی خوشنودی اور شاید کسی پراسرار فنانسنگ کی وجہ سے یہ فلمیں بنتی رہتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہ وہ نکتہ ہے جو سمجھنا چاہیے۔ نارتھ انڈیا کی انٹیلی جنشیا، فلم انڈسٹری اورسیاسی اشرافیہ آج تک تقسیم کے بعد کے زہریلے تعصبات سے اوپر نہیں اٹھ سکے۔ دوسرا یہ بھی کہ بی جے پی کا اثرورسوخ نارتھ انڈیا میں ہے، انہیں سیٹیں بھی یہاں سے ملتی ہیں، ساؤتھ میں ان کی دال ابھی تک نہیں گل سکی۔
اس لیے بالی وڈ جو کہ اصلاً نارتھ انڈین انڈسٹری بن چکی ہے، وہ بی جے پی کے شدت پسندانہ ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے پروپیگنڈا فلمیں بناتے رہتے ہیں۔ ایسی کچھ فلمیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو کچھ فلاپ، مگر اس کے باوجود سرکار کی خوشنودی اور شاید کسی پراسرار فنانسنگ کی وجہ سے یہ فلمیں بنتی رہتی ہیں اور ان میں ایک خاص متعصبانہ پروپیگنڈا اور سازشی تھیوریز کارفرما رہتی ہیں۔ یہ اور بات کہ بالی وڈ فلم میکرز نے ابھی تک یہ بھی نہیں سیکھا کہ ڈھنگ سے پروپیگنڈا کیسے کیا جا سکتا ہے؟ وہ اکثر سطحی، ہلکی، غیرحقیقی اور مصنوعی ماحول والی بری پاکستان مخالف فلمیں بناتے ہیں۔
فلم بین حلقوں کو بری فلمیں بنانے پر زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ پروپیگنڈہ تو ہالی وڈ والے بھی بہت کرتے ہیں، کبھی روسیوں کے خلاف، آج کل چینیوں کے خلاف بھی پروپیگنڈا فلمیں بنتی ہیں، مگروہ ڈھنگ سے فلم تو بنا لیتے ہیں، بالی وڈ بڑے فلمساز بھی تباہ کن غلطیاں کرنے کے عادی ہیں۔ شاید انہیں وہ اپنے عوام کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ تنقید کر سکیں گے یا غلطیاں پکڑ لیں گے۔ جو بھی وجہ ہو، بہرحال یہ ہے افسوسناک اور مایوس کن امر۔

 

شیئر: