Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں آخر اتنی سردی کی وجہ کیا ہے؟

ماہر موسمیات کو امید ہے کہ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال موسم گرما شاید اتنی شدت کا نہ ہو۔ فوٹو: اے ایف پی
آج کل ہر جگہ لاہور میں سردی سے متعلق سوال سننے کو مل رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر تیسرا شخص لاہور میں جاڑے کے اس موسم کی شدت کو محسوس کر رہا ہے۔ اور جب سبھی ایک موضوع پر بات کر رہے ہوں تو یقیناً خبر تو بنتی ہی ہے۔
نئے سال کا پہلا دن یعنی یکم جنوری 2020 کی صبح موجودہ موسم سرما کی سرد ترین صبح تھی جب درجہ حرارت دو سینٹی گریڈ تک گر گیا۔ محکمہ موسمیات کے چیف میٹرالوجسٹ صاحب زاد  نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سردی کی یہ شدید لہر ابھی کچھ دن اور چلے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ تھوڑی غیر معمولی سردی اس لیے بھی لگ رہی ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں زیادہ شدت کی سردی نہیں پڑی تو لوگ کم سردی کے عادی ہو گئے تھے۔ آپ نے اکثر لوگوں کو سنا ہو گا کہ سردیاں سکڑ گئی ہیں۔ ایسے میں جب آپ کی طبیعت کم سردی کی عادی ہے تو نارمل سردی بھی آپ کو زیادہ ہی لگے گی۔
موجودہ سردی کی لہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے صاحب زاد نے بتایا کہ اس وقت ملک کے شمالی علاقہ جات شدید سردی اور برف باری کی لپیٹ میں ہیں اور سرد ہوائیں چل رہی ہیں جبکہ جنوب میں بھی سائیبرین ہوائیں کراچی کے ساحلوں پر پہنچ چکی ہیں جس کی وجہ سے وسطی پاکستان بھی سردی کی اسی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ خاص طور پر وسطی پنجاب کے باسی جس میں لاہور بھی شامل ہے اس سرد موسم کی زد میں ہیں لیکن یہ کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی کے مطابق آئندہ ہفتے پیر اور منگل کو بارشوں کے ایک چھوٹے سلسلے کی توقع ہے جس سے دھند میں کمی آئے گی اور سورج نکلنے سے سردی کی شدت میں بھی کمی واقع ہو گی۔
چیف میٹرالوجسٹ صاحب زاد کے مطابق ایک طرح سے یہ سردی فائدہ مند بھی ہے توقع ہے کہ شدید سردی کے باعث اس بار سردیوں کے موسم کا دورانیہ بھی تھوڑا زیادہ ہو گا۔ اور مارچ اپریل تک موسم خوشگوار ہی رہے گا۔

چیف میٹرالوجسٹ صاحب زاد کے مطابق ایک طرح سے یہ سردی فائدہ مند بھی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک سوال کے جواب میں کہ موسم کی بے اعتنائی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا کتنا اثر ہے؟ چیف میٹرالوجسٹ صاحب زاد کا کہنا تھا ’آپ اس موسم کو ماحولیاتی تخریب کاری سے ہٹ کے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اگر آپ کو یاد ہو پچھلے سال شدید سردی کا دورانیہ لاہور اور پنجاب میں تین ہفتے سے زیادہ نہیں تھا۔
لیکن اسی دوران امریکہ کی کچھ ریاستیں تاریخ کی بدترین سردی کی لہر کی لپیٹ میں تھیں۔ کسی بھی ایک خطے کا موسم پورے ایکو سسٹم سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے جو اثرات اس وقت پوری دنیا میں مرتب ہو رہے ہیں اس میں ہمارے خطے کے حصے میں کتنا اور کیسے آتا ہے وہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال موسم گرما شاید اتنی شدت کا نہ ہو جتنی شدت کا پچھلے سال محسوس کیا گیا اس کی ایک وجہ سردی کے موسم کی طوالت اور پھر مون سون کے دو دور ہیں کیونکہ اب پری مون سون بھی بارشوں کا ایک الگ سے موسم بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ لاہور کا درجہ حرارت دو سے نیچے بھی جا سکتا ہے۔ اور ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ ماضی میں لاہور کا درجہ حرارت صفر تک بھی پہنچا ہے۔

شیئر: