اپنے شہر میں موسم سرما کی آمد کے حوالے سے سوال سننے کا سلسلہ تب شروع ہوا جب 2019 کے فروری میں اسلام آباد کا رُخ کیا۔
اگر کراچی میں موسمِ سرما کے بارے میں کسی مقامی شخص سے پوچھیں تو ہمارے لیے تو سویٹر، چلیں وہ نہیں تو کم از کم شالیں نکالنے کا وقت تب ہی شروع ہو جاتا ہے جب نومبر کی راتوں میں ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے۔ چونکہ اکتوبر انتہائی گرم اور خشک ہوتا ہے تو نومبر میں چلنے والی ان ٹھنڈی ہواؤں کو ہم سردی کے آغاز کا ہی پیغام سمجھتے ہیں۔ شام گزرنے کے بعد اگلے روز دن کے وقت موسم کی کیا صورتحال ہوتی ہے، وہ ایک الگ قصہ ہے۔
اب جب سردی یا ’کراچی کی سردی‘ کا آغاز ہوتا ہے تو فوراً دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ شام میں چھت پہ چائے اور رات کو بار بی کیو کے منصوبے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔
یوں تو کہا جاتا ہے کہ سردیوں میں ڈیپریشن ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں لیکن میرے حساب سے دن چھوٹے ہونے کے باوجود گھروں اور گلیوں میں الگ رونق دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی نہیں، اگر آپ گھر سے باہر نکل کر مارکیٹ کی جانب نکلیں تو لوگوں کا ہجوم دھواں نکلتے ٹھیلوں کے گرد دیکھیں گے جہاں سُوپ فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔
کراچی میں میری سردیوں کی یادوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کزنز مل کر اپنے گھر کے نزدیک ایک دکان پر سُوپ پینے جاتے تھے اور اگر ان دنوں چھٹیاں ہوتیں تو راتوں کو جاگ کر کبھی باتیں کرتے یا فلمیں دیکھتے تھے۔ اس کے علاوہ گھر کی چھت پر ہمارے یا امی ابو کے دوستوں کا باربی کیو ہر سال موسمِ سرما میں ہونا لازمی ہوتا تھا۔
لیکن اسی موسم میں جہاں شامیں تفریح اور سکون کا ایک منظر ہوتی ہیں، وہیں دن میں سورج جب اپنے جوبن پر ہوتا تھا تو یہ سب بھلانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ گھر سے صبح اونی کپڑے پہن کر نکلتے تو صبح 10 بجے سے ہی اپنے اس فیصلے پر افسوس ہوتا کیونکہ تب سے لے کر کم از کم شام پانچ بجے تک سردی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں
-
گھر اور گاڑی کی جگہ اب چلغوزے اور ٹماٹر؟Node ID: 443941
-
شاپنگ مال کی جنگجو عورتیں اور سیل کی رودادNode ID: 444961
-
دسمبر کی دھوپ اور شاعری کا پت جھڑNode ID: 446781
-
کیا آپ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں؟ رمیز راجا کا سوالNode ID: 448316
میرا سکول ایک بہت کھلے رقبے پر تھا، جہاں صبح کو اندر چلتے وقت میں کوشش کرتی کہ براہ راست دھوپ کے زیرسایہ چلا جائے، لیکن بریک کے وقت تک یہ منظر اور میری خواہش دونوں بدل جاتے۔ مجھے سکول ختم کیے کئی سال ہوگئے ہیں لیکن کراچی میں سردی کی صورت حال اب بھی وہی ہے۔
اسلام آباد میں بھی مجھے لگا تھا کہ خواہ شام اور رات کو کتنی ہی سردی کیوں نہ ہوجائے، ایک بار دھوپ نکلے گی تو کم از کم اس وقت موٹے کوٹ میں چھپنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ سوچ کر ایک دن میں صبح 10 بجے گھر سے یہ سوچ کر نکلی کہ اس ٹھنڈے شہر میں کسی پہر تو تھوڑی گرماہٹ ملے گی، لیکن سورج کی صفر کے برابر تپش نے مجھے ایک نئی حقیقت سے روشناس کر دیا۔
سورج یہاں سردیوں میں چاند کا کردار ادا کرتا ہے یہ تو چونکا دینے والی بات تھی ہی، ایک اور حیران کن بات یہ تھی کہ یہاں شام پانچ بجے سے ہی اندھیرا پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔
ابھی اکتوبر چل ہی رہا تھا، ہم سہیلیوں نے شام کے وقت چہل قدمی شروع کی ہی تھی کی اندھیرا پہلے ساڑھے چھ اور پھر چھ بجے ہونے لگا۔ ہم نے اس وقت کے اور پیچھے جانے کا انتظار نہیں کیا اور اپنا منصوبہ سردیوں کے ختم ہونے تک ملتوی کردیا۔
اسلام آباد میں اکتوبر کی ایک اور بات میرے لیے نئی تھی، اور وہ یہ تھی کہ شام کے وقت مجھے خیال آیا کہ شال یا کوئی ہلکہ سویٹر پہن لیا جائے۔ پڑھنے والوں کے لیے شاید یہ کوئی بڑی بات نہ ہو، لیکن میں اسے بڑی بات سمجھتی ہوں کیونکہ کراچی میں اکتوبر کے مہینے میں شال کا تصور کرنا ہی اپنے اوپر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
یہ موازنہ مجھے زیادہ تب محسوس ہوا جب اکتوبر کے کچھ دن اسلام آباد میں گزارنے کے بعد میں کراچی گئی۔ ایک طرف اسلام آباد میں ہم نے ہیٹر خریدنا اور سردی کی دیگر تیاریوں کا ذکر شروع کردیا تھا۔ اور دوسری طرف کراچی میں دن کے وقت گھر سے نکلنے کا بھی سوچا نہیں جا رہا تھا۔
یہاں رہنے والے دوستوں کا تو خیال ہے کہ مجھے اب کراچی میں دسمبر کے مہینے میں سردی محسوس نہیں ہوگی۔ اب دیکھنا ہے کہ ان کا خیال درست ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں