جے این یو یونیورسٹی میں نقاب پوش افراد نے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا: فوٹو اے ایف پی
اب سے ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کانپور کو کتنے لوگ جانتے تھے۔ اب سارا سنسار جانتا ہے۔
آپ میں سے کتنوں نے عامر خان کی فلم ’تھری ایڈیٹس‘ دیکھی ہے؟ اس فلم میں ایسے ہی اعلیٰ اداروں میں دی جانے والی تعلیم کو موضوع بنایا گیا ہے جو نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں ابھارنے کے بجائے انہیں معیاری روبوٹس بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہاں دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں کا جواب معلوم کرنے کے لیے بھی کیلکولیٹر کا استعمال افضل بتایا جاتا ہے اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ منطق پڑھائی جائے اور اس امکان کا دروازہ بھی وا رکھا جائے کہ جب کیلکولیٹر کے سیل جواب دے جائیں تو دماغی سیل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ایسے ماحول میں فیض احمد فیض یا کسی کی بھی شاعری کو سمجھانے سمجھنے کی کوشش تھوک سے پن چکی چلانے جیسا ہے۔ اسی لیے آئی آئی ٹی کانپور کی انتظامیہ کو فیض صاحب کی ایک نظم کا مطلب سمجھنے کے لیے پوری ایک کمیٹی قائم کرنا پڑی۔ وہ نظم کہ جو اس وقت انڈیا سے لے کر پاکستان تک ہر اس بے چین لڑکے لڑکی کو سمجھ میں آ رہی ہے جو موجودہ نظام سے مطمئن نہیں۔
ویسے فیض صاحب کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ سمجھنا اور ہضم کرنا یہ سمجھنے سے بہت زیادہ آسان ہے کہ گنیش جی کی پلاسٹک سرجری ہوئی تھی یا ڈیڑھ لاکھ ورش پہلے انڈیا ورش میں طیارے اڑا کرتے تھے یا پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے جنات سے توانائی کیسے نچوڑی جا سکتی ہے۔
اوروں کو کیا روئیں جہاں فیض صاحب پیدا ہوئے وہ ملک بھی فیض صاحب کے جانے کے بعد ہی پوری طرح سمجھ پایا کہ وہ غدار نہیں دراصل محبِ وطن ہی تھے۔ بس یہ ہے کہ وہ کوئی تنخواہ دار نہیں بلکہ مفت کے اور اپنی مرضی کے محبِ وطن تھے۔
ویسے کسی شاعر اور اس کے کلام کو دیش بھگتی یا وطن دشمنی ترازو میں تولنا ایسے ہی ہے جیسے میں یہ کہوں کہ بڑے غلام علی خان سُر کے تو بہت پکے تھے پر بطور ویلڈر بالکل کورے تھے اور سائیکل کا پنکچر بھی شاید لگانا نہیں جانتے تھے۔
معلوم نہیں کہ اس پر ہنسنا چاہیے کہ رونا کہ ’ہم دیکھیں گے‘ نظم لکھے جانے کے 40 برس بعد کسی کا دھیان اس طرف گیا کہ یہ نظم کسی دھرم کا مذاق تو نہیں اڑا رہی۔
اس کے بعد تو مجھے وہ پھٹیچر قصہ بھی لطیفہ نہیں لگتا جب ایک موٹا آدمی کسی دُبلے آدمی سے ٹکرا گیا تو دُبلے نے کہا ’ابے گینڈے دیکھ کے نہیں چلتا‘۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک مہینے بعد اسی موٹے آدمی کو وہی دُبلا آدمی بازار میں پھر سے دکھائی دیا تو موٹے نے اس کا گریبان پکڑ کے جھنجھوڑا ’تو نے مجھے اس دن گینڈا کیوں کہا تھا؟
دُبلے نے کہا ’بھائی صاحب وہ تو مہینے بھر پہلے کا قصہ ہے، آپ اب تک نہیں بھولے‘۔ موٹے نے کہا ’مگر میں نے کل ہی چڑیا گھر میں گینڈا دیکھا ہے۔ اب بتا تو نے مجھے کیوں کہا گینڈا۔‘
فیض صاحب ہمیشہ تیوری چڑھائے بغیر مسکراتے دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے۔ ایک بار کسی مشاعرے میں فیض صاحب نے کلام پڑھا تو سب سے زیادہ اُچھل اُچھل کے داد اس شاعر نے دی جس کا ایک مصرعہ وزن کے اعتبار سے سوا سیر اور دوسرا تین پاؤ کا ہوا کرتا تھا۔ اس پر فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھئی اب تو مجید (فرضی نام) بھی ہمارے شعر سمجھنے لگا ہے۔ کیا ہم واقعی اتنی خراب شاعری کرنے لگے ہیں؟
اچھا شعر کیا ہوتا ہے۔ یہ بات میرے ایک پسندیدہ انڈین شاعر پرسون جوشی سے بہتر کون جانتا ہے۔ جوشی جی چاہتے تو یہ کہہ کر معاملہ سلٹا سکتے تھے کہ فیض صاحب کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ میں ’اس ارضِ خدا کے کعبے سے سب بُت اُٹھوائے جائیں گے‘ کا مطلب ہندو دھرم کی توہین نہیں۔ نظم میں برلا مندر کی بات نہیں ہو رہی، کعبے سے بُت اٹھوانے کے ڈیڑھ ہزار برس پرانے واقعے اوراس کی نسبت سے آج کے فرعونوں کی طرف اشارہ ہے۔
مگر پرسن جوشی پر ہم اس لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتے کیونکہ وہ ان دنوں نہ صرف انڈین فلم سنسر بورڈ کے سربراہ ہیں بلکہ مودی جی سے یہ سوال پوچھنے کی وجہ سے اپنی شاعری سے بھی زیادہ شہرت پا چکے ہیں کہ مودی جی آپ میں اتنی فقیری کہاں سے آئی؟
میری تو صلاح ہے کہ فیض صاحب کے ہاں بتوں کی توہین تلاش کرنے والوں کو ایک احتجاجی مظاہرہ اب مرزا غالب کی قبر پر بھی کرنا چاہیے جنہوں نے سوا سو سال پہلے لکھا کہ
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بُتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ والے علامہ اقبال کے خلاف بھی احتجاج کرنا چاہیے جنہوں نے لکھا کہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ ازاں لا الہ اللہ
یا پھر
بُتوں سے اُمیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
جب ماحول یہ ہو کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں ڈاکٹر فیروز خان مسلمان ہونے کی وجہ سے سنسکرت نہ پڑھا سکے یا ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس کے بجائے عقیدے کے ترازو میں تولا جائے۔ ایسے میں فیض صاحب کیا بیچتے ہیں۔
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ تین چار دن پہلے ہی ہمارے جانے مانے ادیب محمد حنیف کے ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے اردو ترجمے کی کاپیاں خود کو آئی ایس آئی کے اہلکار بتانے والوں نے پبلشر کے دفتر میں گھس کر ضبط کر لیں۔ یہ ناول جنرل ضیا الحق کے دور پر لکھا گیا ہے حالانکہ یہ کوئی تحقیقی مقالہ نہیں ناول ہے پھر بھی ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق نے محمد حنیف پر اپنے والد کو بے عزت کرنے پر ایک ارب روپے کا دعویٰ دائر کر دیا ہے۔
ناول انگریزی میں گیارہ برس پہلے چھپا تھا مگر کسی سرکاری کارندے نے اس ناول کا اردو ترجمہ جو چند ماہ پہلے پاکستان میں ہی چھاپا شاید ایک ہفتے پہلے ہی پڑھا۔ گویا گینڈا جب نظر آ جائے تب ہی تو سمجھ میں آوے گا۔
دلی کی جواہر لعل یونیورسٹی (جے این یو) میں جمعہ کو جو کچھ ہوا، سوچیے کہ ڈنڈا بردار نقاب پوش اگر ہاسٹل کے ہر کمرے میں جھانکتے ہوئے یا سر پر ڈنڈا مارتے ہوئے یہ کہتے جاتے کہ ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ تو فیض صاحب اور ان کی شاعری کہاں کھڑی اپنا سر سہلا رہی ہوتی۔ شکر ہے اے بی وی پی ( اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد ) کے غضب ناک مسلح لونڈوں نے فیض صاحب کی عزت رکھ لی۔
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں