Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر حملہ پہلے سے طے تھا‘

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اتوار کو کچھ افراد نے دھاوا بول دیا تھا۔ فوٹو:سوشل میڈیا
انڈیا کا معروف تعلیمی ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) ایک بار پھر خبروں میں ہے اور اس بار معاملہ انتہائی سنگین نظر آ رہا ہے کیونکہ کیمپس میں 50 سے زیادہ نقاب پوش افراد داخل ہوئے اور انہوں نے طلبہ اور ٹیچرز کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ہاسٹل میں توڑ پھوڑ کی۔
جے این یو کے طلبہ پر ہونے والے حملے پر انڈیا کے مختلف گوشوں سے مذمت کی جا رہی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر اسے بی جے پی کی ایما پر کیا جانے والا حملہ بتایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب لوگ امت شاہ کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق آل انڈیا میڈیکل سائنسز ہسپتال کے حکام نے بتایا ہے کہ پیر کو جے این یو کے 34 طلبہ کو ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔ انہیں گذشتہ شام ساڑھے پانچ بجے کے بعد ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
زخمی ہونے والوں میں جے این یو طلبہ یونین کی صدر آئیشی گھوش بھی ہیں جنہیں سر پر چوٹ آئی ہے اور ان کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے۔
جے این یو کے سابق طالب علم اور سٹوڈنٹ یونین کے صدر سیتارام یچوری نے آئیشی گھوش کی ویڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'اس ویڈیو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آر ایس ایس/ بی جے پی انڈیا کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔'
عینی شاہدین کا الزام ہے کہ حملہ آوروں نے کپڑوں سے اپنے منہ چھپا رکھے تھے اور انہوں نے ہاسٹل میں چن چن کر مسلمان طلبہ کے کمروں کو نشانہ بنایا۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق دلی میں جنوب مغربی علاقے کے نائب پولیس کمیشنر دیویندر آریہ نے کہا ہے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جبکہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پوسٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی بھی جانچ کی جائے گی۔
دوسری جانب جے این یو انتظامیہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکم جنوری سے یونیورسٹی کا سرمائی سیشن شروع ہوا اور اس کے ساتھ طلبہ کے ریجسٹریشن کا معاملہ شروع ہوا لیکن طلبہ کا ایک گروپ ریجسٹریشن کے خلاف تھا اور انہوں نے انٹرنیٹ کو نقصان بھی پہنچایا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پانچ جنوری کو ریجسٹریشن کرانے والے اور انہیں روکنے والوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی لیکن شام ساڑھے چار بجے کے بعد نقاب پوش افراد پیریار ہوسٹل میں داخل ہوئے اور طلبہ کے کمروں میں گھس کر ان پر ڈنڈے اور راڈ سے حملہ کر دیا۔
بی جے پی کے رہنما گری راج سنگھ نے کمیونسٹ پارٹی اور اس مکتبۂ فکر کے حاملین پر جے این یو میں تشدد کا الزام لگایا ہے جبکہ کانگریس پارٹی کے ترجمان سندیپ سنگھ سورجے والا نے انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ ٹویٹ کرتے ہوئے بی جے پی کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے لکھا: 1۔ جے این یو پر حملہ پہلے سے طے تھا۔  2۔ حملے کو جے این یو انتظامیہ کی حمایت حاصل تھی۔ 3۔ غنڈے بی جے پی کے تھے۔ 4۔ طلبہ اور ٹیچر کو پیٹا جا رہا تھا اور دہلی پولیس خاموش تماشائی تھی۔ کیا یہ سب بغیر وزیر داخلہ کی سازباز کے ہو سکتا ہے؟'
دوسری جانب کل شام جوں ہی جے این یو پر حملے کی خبر پھیلی رات میں ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ممبئی میں گیٹ وے آف انڈیا کے تاریخی مقام پر بہت سے کالج کے طلبہ یکجا ہو گئے اور انہوں نے حملے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اب یہ مظاہرہ سوموار کو پورے دن جاری رہے گا جس میں طلبہ بڑی تعداد میں شرکت کرنے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔
آئی آئی ایم احمد آباد کے سامنے شام ساڑھے پانچ بجے مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ علی گڑھ میں ماس کمیونیکیشن سے  باب سرسید تک مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔
دہلی میں جے این یو کے گیٹ پر مظاہرہ جاری ہے جبکہ جامعہ اور شاہین باغ میں روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کی درجنوں یونیورسٹی میں جے این یو کی حمایت میں جلوس نکالے جا رہے ہیں۔

شیئر: