’وہ رات کو اپنی شفٹ ختم کر کے واپس گھر آ گئے تھے اور ان کی ٹیم بھی امدادی سرگرمیوں کے لیے جا چکی تھی جب حیدر علی ڈی ایس پی کی گاڑی میں سوار ہو کر ریسکیو سرگرمیوں کے لیے روانہ ہوئے۔‘
یہ کہنا ہے کانسٹیبل حیدر علی کے ماموں ظہیر عباس کا۔ کانسٹیبل حیدر علی جہلم میں امدادی سرگرمیوں کے دوران سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے تھے۔
ریسکیو 1122 پنجاب کے ترجمان عمر فاروق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس کانسٹیبل حیدر علی کی لاش نکال لی گئی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
مون سون میں تباہی: وجہ غیرمعمولی بارشیں یا حکومت کی کوتاہی؟Node ID: 892344
حالیہ مون سون بارشوں کے بعد پنجاب میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ضلع جہلم میں تھانہ چوٹالہ کے 6 پولیس اہلکار سیلاب میں پھنس گئے تھے۔
حکام کے مطابق یہ 6 اہلکار لوگوں کو ریسکیو کرنے میں مصروف تھے۔ پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے پولیس اہلکار کئی گھنٹوں تک محصور رہے۔
ان 6 اہلکاروں میں ایک پولیس کانسٹیبل حیدر علی حسین بھی شامل تھے۔ حیدر علی ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان کے علاقے پنڈی سید سے تعلق رکھتے تھے۔
گزشتہ روز باقی پولیس اہلکاروں کو ریسکیو کر لیا گیا تھا تاہم حیدر لاپتہ تھے۔ ریسکیو پنجاب کے ترجمان کے مطابق آج صبح ہی حیدر علی کی لاش نکال لی گئی ہے۔
ترجمان جہلم پولیس نے ایک بیان میں بتایا کہ ’کانسٹیبل حیدر علی حسین نے جان کی پروا کیے بغیر کئی افراد کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔‘
’ریسکیو سرگرمیوں کے دوران اچانک پانی کے بہاؤ میں شدت آ گئی جس کے دوران شہریوں کی جان بچاتے بچاتے وہ خود جان کی بازی ہار گئے۔‘

اس حوالے سے حیدر علی حسین کے ماموں ظہیر عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حیدر علی حسین گزشتہ 6 برسوں سے محکمہ پولیس سے وابستہ تھے۔
ان کے مطابق ’28 سالہ حیدر ابھی نوجوان تھے۔ وہ بہت محنتی پولیس اہلکار تھے۔ ہم رات کو جب تھانے گئے ہیں تو وہاں تمام اہلکار اور افسر ان کی تعریف کر رہے تھے۔ وہ کسی غلط کام میں ملوث نہیں تھے کیونکہ ان کی فطرت ہی ایسی تھی کہ وہ ہر اچھے کام میں آگے آگے ہوتے تھے۔‘
حیدر نے کراچی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی جس کے بعد وہ محکمہ پولیس سے وابستہ ہوگئے۔
ستمبر 1997 میں پیدا ہونے والے حیدر اکلوتے بیٹے تھے۔ ظہیر عباس بتاتے ہیں کہ ’وہ ہم سب کے لاڈلے تھے۔ محنت سے کام کرتے تھے اسی لیے سب کو پسند تھے۔ وہ اکلوتے بیٹے تھے اور گھر والوں کے لاڈ پیار سے پلے بڑھے تھے۔‘
حیدر علی رات کو اپنی ڈیوٹی پوری کر کے لوٹ گئے تھے تاہم جب صورتحال بگڑتی گئی تو پولیس نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لینا شروع کیا۔
ظہیر عباس اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’ہمیں بعد میں یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنی شفٹ ختم کر کے رات کو ہی گھر لوٹ آئے تھے۔ یہ ان کے آرام کا وقت تھا لیکن جیسے ہی حالات بدلے تو وہ تھانے پہنچے۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ ان کی ٹیم روانہ ہوچکی ہے۔‘
ان کے مطابق حیدر علی تھانے میں انتظار کرتے رہے تاہم جب متعلقہ تھانے کے ڈی ایس پی امدادی سرگرمیوں کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو یہ خاموشی سے ان کے ڈالے میں بیٹھ گئے۔‘
ہمیں ڈی ایس پی نے بتایا کہ حیدر علی ان کے ڈالے میں سوار ہو کر جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔ ڈی ایس پی صاحب یہ بتا رہے تھے کہ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے حیدر کو منع کیوں نہیں کیا۔

اکلوتے حیدر علی غیر شادی شدہ تھے۔ گھر والے ان کی شادی سے متعلق سوچ بچار کر رہے تھے۔
ظہیر عباس بتاتے ہیں کہ ’گھر میں ابھی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ حیدر کی شادی ہوجانی چاہیے۔ ہم سب لڑکی کی تلاش میں تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ حیدر اپنے محلے میں دوستوں کو بھی عزیز تھے اور تمام دوست انہیں بچانے کے لیے جائے وقوعہ پر جا رہے تھے۔
ان کے مطابق ’میں خود جب وہاں پہنچا تو ان کے 20 سے 25 دوست انہیں ڈھونڈنے کے لیے جا رہے تھے لیکن سڑک خراب ہونے کی وجہ سے وہ آگے نہیں جا سکے۔‘
ڈسٹرکٹ پولیس افسر جہلم نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ پولیس کانسٹیبل حیدر علی حسین کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔
’ہمیں اپنے شہید پر فخر ہے۔ اُنہوں نے اپنی جان دے کر دوسروں کی جانیں بچائیں۔ جہلم پولیس ایسے جانثار سپاہیوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شہید کو پورے پولیس اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا، شہید نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کیا کہ عوام کی خدمت اور تحفظ کے لیے جہلم پولیس ہر لمحہ تیار ہے۔‘
دوسری جانب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ ’دکھ کی اس گھڑی میں شہید کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ شہید کے اہلخانہ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، ان کی فلاح و بہبود کا بھرپور خیال رکھا جائے گا۔‘