Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان خاموش کیوں ہیں؟

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان میں 19 برس سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں جو کچھ تعطل کے بعد گذشتہ برس دسمبر میں دوبارہ بحال ہوئے تھے۔ 
امریکہ کا مطالبہ رہا ہے کہ کسی بھی معاہدے پر پہنچنے سے قبل افغانستان میں جنگ بندی کی جائے۔
اس جنگ بندی کے حوالے سے افغان طالبان کے رہنماؤں کے درمیان افغانستان میں مشاورت بھی ہوئی اور ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ہائی پروفائل حملے نہیں کیے جائیں گے۔
تاہم گذشتہ دو روز سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے مبینہ طور پر سات سے دس دن تک جنگ بندی اور تشدد میں کمی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ 
 
اس بات کی تصدیق نہ طالبان اور نہ ہی امریکہ نے کی ہے، لیکن اس سلسلے میں امریکہ کے دورے کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ جمعرات کو طالبان نے کشیدگی میں کمی پر آمادگی کا  اظہار کر دیا ہے۔
دوسری طرف قطر میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے جمعرات کی رات گئے امریکہ کے ساتھ ’مثبت بات چیت‘ جاری ہونے کے حوالے سے ٹویٹ کی مگر اس میں بھی انہوں نے جنگ بندی کی تصدیق نہیں کی اوروہ  ابھی تک اس پر خاموش ہیں۔
کیا واقعی غیر اعلانیہ جنگ بندی ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو افغان طالبان نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے اور ابھی تک اس سلسلے میں ان کا موقف کیوں سامنے نہیں آیا؟
اس پر افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان کہتے ہیں ’ہو سکتا ہے وہ امریکہ کے ردعمل کے منتظر ہوں یا وہ اس بات پر مشاورت کر رہے ہوں کہ کیسے اس بات کا اعلان کیا جائے۔‘

پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں تشدد میں کمی کو امن عمل کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔ (فوٹو:اے ایف پی)

کیا پاکستان کے وزیر خارجہ نے ویڈیو بیان دینے سے پہلے طالبان سے رابطہ کیا ہوگا؟ اس بارے میں طاہر خان کہتے ہیں کچھ کہنا مشکل ہے تاہم  تمام فریق رابطے میں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بڑی پیشرفت ہے، گذشتہ ماہ بگرام ایئربیس پر حملے کے بعد مذاکرات میں جو رکاوٹ آئی تھی وہ ختم ہو سکتی ہے اور دونوں فریق امن معاہدے کی جانب بھی جا سکتے ہیں۔‘
افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی جانب سے یہ ایک غیر ضروری بیان تھا جو اب امریکہ میں کیش کیا جائے گا۔
سمیع یوسفزئی کے مطابق ’یہ بیان طالبان کی جانب سے دیا جانا تھا نہ کہ پاکستان کی جانب سے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیان کو طالبان کے حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا ’ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ بیان خود طالبان دیتے نہ کہ پاکستان کے وزیر خارجہ۔ یہ صورتحال طالبان کے لیے ایک باعث شرمندگی ہے۔ ویسے بھی طالبان پر یہ الزام ہے کہ یہ پاکستان کے آلہ کار ہیں۔‘

طالبان نے کسی بھی معاہدے پر پہنچنے سے پہلے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے۔ (فوٹو:اے ایف پی)

امریکہ بشمول افغان حکومت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ ہے، جس کی پاکستان کی جانب سے یہ کہتے ہوئے تردید کی جاتی ہے کہ اس کا اب طالبان پر ماضی کی برعکس زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا ہے جبکہ طالبان کی جانب سے اس بھی تردید کی جا چکی ہے۔
دوسری جانب افغان  صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے جنگ بندی کے  حوالے سے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان عوام اور حکومت ہر اس پلان کی حمایت کرے گی جس میں  جنگ بندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔
’امن افغان حکومت، عوام اور ہمارے بین الاقوامي اتحادیوں کي بنیادي ترجیح ہے۔ جنگ بندی پائیدار امن پانے کا واحد راستہ ہے جس کا مطالبہ افغانستان کی حکومت اور عوام کرتے آئے ہیں۔‘
واضح رہے جمعرات کو افغانستان کے پیس آفیئرز کے وزیر سلام رحیمی نے طالبان کی جانب سے تشدد میں کمی کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ افغان حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کی جانب سے امن عمل کے لیے مذاکراتی ٹیم کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جو طالبان سے مذاکرات کرے گی۔
افغان طالبان کا موقف رہا ہے کہ جب تک امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ نہیں ہو جاتا افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔
 

شیئر: