Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کا امتحان ابھی جاری

ق لیگ کے علاوہ تحریک انصاف کو اپنے ارکان کی مزاحمت کا بھی سامنا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پنجاب میں تحریک انصاف کو سیاسی ناگہانی صورت حال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب صوبے میں ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبات پورے کرنے کے لیے سات روز کا وقت دے دیا۔ 
اس کے بعد تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب سے 20 ارکان صوبائی اسمبلی نے تین روز قبل ایک گروپ تشکیل دے کر پارٹی کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔
ابھی یہ معاملہ تھما نہیں تھا کہ گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی اپنی جماعت سے کچھ ناراض نظر آئے اور کئی بیانات داغ دیے، جس نے تحریک انصاف کے اندر جاری سیاسی ہلچل کو اور ہوا دے دی۔
اب خبریں یہ ہیں کہ اس چومُکھی لڑائی میں سے تحریک انصاف کافی حد تک باہر نکل رہی ہے کیونکہ ق لیگ کی طرف سے آنے والے بیانات میں وہ گرمی اب نہیں رہی۔ اس بات کا اندازہ بدھ کو صدر ق لیگ چوہدری شجاعت حسین کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم تنقید نہیں کرتے تجاویز دیتے ہیں، حکومت کو ان تجاویز سے استفادہ کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ اتحاد میں ہیں اور انہیں محض اتحادیوں کے زمرے میں نہ رکھا جائے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ بیان میڈیا کے لیے براہ راست جاری کرنے کے بجائے لاہور بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداروں سے رکھی گئی ایک ملاقات کے تناظر میں جاری کیا گیا۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کا بظاہر صوبائی سیاسی صورت حال سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ق لیگ کے مطالبات کیا تھے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے ایسے مطالبات تھے جو پورے نہیں ہو رہے تھے جن کی وجہ سے ق لیگ کو جارحانہ انداز اختیار کرنا پڑا اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ایک بیان میں تسلیم کیا کہ ق لیگ سے اتحاد سے پہلے باقاعدہ تحریری طور پر معاملات طے ہوئے تھے اور حکومت ان کی پاسداری کرے گی۔

ق لیگ کو شکوہ ہے کہ سیاسی معاملات میں ان سے مشاورت نہیں کی جاتی، فوٹو: سوشل میڈیا

اسی حوالے سے دونوں جماعتوں کا گذشتہ ہفتے اجلاس ہوا جس میں ق لیگ کی طرف سے چوہدری مونس الٰہی، طارق بشیر چیمہ اور چوہدری سالک جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک شریک ہوئے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی پنجاب بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ق لیگ کی جانب سے چار مطالبات رکھے گئے تھے جنہیں تسلیم کر لیا گیا ہے۔‘
ق لیگ کی طرف سے پہلا اور بڑا مطالبہ ترقیاتی فنڈز کا رکھا گیا۔ مسلم لیگ ق کے مطابق جنوبی پنجاب اور میانوالی میں تو کام دن رات ہو رہے ہیں جبکہ ق لیگ کے حلقوں میں کچھ بھی نہیں ہو رہا۔
ارکان صوبائی اسمبلی کو جاری ہونے والی سالانہ گرانٹ کا مطالبہ بھی رکھا گیا جس سے وہ اپنی مرضی کے کام بھی کروا سکتے ہیں۔ اس مطالبے پر ابھی غور جاری ہے کیونکہ تحریک انصاف ماضی میں ان گرانٹس کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ مطالبہ ماننے کی صورت میں حکومت کو تمام ارکان صوبائی اسمبلی کو یہ گرانٹس جاری کرنا پڑے گی۔
ق لیگ کا تیسرا بڑا مطالبہ ہے کہ بیوروکریسی ان کے احکامات نہیں مانتی اور میرٹ پر تقرر اور تبادلوں کے لیے ان کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا۔ اس مطالبے کو بھی کسی حد تک اس ملاقات میں پذیرائی ملی۔

ق لیگ نے ارکان اسمبلی کو جاری ہونے والی سالانہ گرانٹ کا مطالبہ بھی کیا ہے، فوٹو: سوشل میڈیا

ق لیگ کا ایک بڑا شکوہ یہ بھی تھا کہ تحریک انصاف صوبے کے اہم سیاسی معاملات میں مشاورت نہیں کرتی، اہم اتحادی ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے کہ انہیں اہم معاملات پر ساتھ رکھا جائے۔ حکومتی وفد نے ان کا یہ مطالبہ وزیر اعظم عمران خان کے سامنے رکھنے کی یقین دہانی کروائی۔

تحریک انصاف کا اندرونی خلفشار

ق لیگ کی یقین دہانی کے بعد تحریک انصاف کو اب اپنی جماعت میں بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس مزاحمت کا تعلق براہ راست ق لیگ کے مطالبات ماننے سے ہے۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور کے حالیہ بیانات سے بھی عدم اطمینان جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
ق لیگ اور تحریک انصاف کی میٹنگ کے دو روز بعد انہوں نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں اگر کشتی ڈوبی تو سب ڈوبیں گے، کوئی اس خیال میں نہ رہے کہ وہ بچ جائے گا۔‘
ان کے اس بیان کا ابھی چرچا جاری تھا کہ تحریک انصاف کے 20 ارکان نے ایک گروپ بنا کر کم و بیش ق لیگ والے مطالبات دہرا دیے۔ گروپ کے سربراہ رکن پنجاب اسمبلی سردار شہاب الدین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ اپنے حقوق کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے کیونکہ وہ اپنے حلقے کی عوام کو جواب دہ ہیں۔‘

گورنر پنجاب چوہدری سرور کا کہنا ہے کہ اگر کشتی ڈوبی تو سب ڈوبیں گے، فوٹو: سوشل میڈیا

سیاسی مبصرین اس دھڑے بندی کو ق لیگ کے مطالبات مانے جانے کے بعد کی صورت حال سے تعبیر کر رہے ہیں۔
آج جمعرات کو وزیر اعلیٰ پنجاب اس دھڑے کے تمام ارکان سے ملاقات کر رہے ہیں جس میں ان کے تحفظات سنے جائیں گے۔ ملاقات سے پہلے ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب، پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی ایک پیج پر ہیں۔‘
’پنجاب میں حکومتی امور چلانے میں تمام فریقین اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے بعض ارکان اسمبلی نے کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنایا۔‘
انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور آئین کے تحت اپنے اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی آئین کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت فرائض سرانجام دے رہے ہیں جبکہ اختلاف کی افواہیں پھیلانے والے عناصر ملک کی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا سفر روکنے کی سازش کر رہے ہیں۔‘
بظاہر ان تمام اختلافات کی تردید کی گئی ہے لیکن دستیاب حقائق سب اچھا کی رپورٹ نہیں دے رہے۔

شیئر: