’کہانی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہم اپنا پیغام بچوں تک بڑی آسانی سے پہنچا سکتے ہیں اور وہ ان کے ذہن میں رہ جاتا ہے، مثلاً ہم جنسی تشدد پر لکھی گئی کہانیاں اور نظمیں بچوں کو پڑھ کر سناتے ہیں۔ انہیں اچھے اور برے لمس کے متعلق بتاتے ہیں۔ تاکہ خود کو محفوظ بنانے کا پیغام ان کے ذہن میں رہ جائے اور یہ اسے آگے پھیلائیں۔‘
یہ کہنا ہے لاہور کی رہائشی سعدیہ سرمد کا جو بچوں کو کہانیاں سناتی ہی نہیں بلکہ انہی کہانیوں سے ہی وہ ان کی تربیت بھی کرتی ہیں۔ کہانیاں سنانے کا ان کا طریقہ کچھ ہٹ کے اور خاص ہے۔
سعدیہ اپنے دلنشیں لہجے، جملوں کے اتار چڑھاؤ اور زبان و بیان سے بچوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ کہانی کے دوران ہی وہ بڑے بڑے پیغامات کوغیر محسوس انداز سے بچوں میں تقسیم کرتی جاتی ہیں۔ ان پیغامات میں سب سے اہم ان کی حفاظت ہے۔ وہ بچوں کو بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے اپنے والدین کو ہر بات سے آگاہ کرنا ہے۔
مزید پڑھیں
-
منٹو حنیف محمد کی بیٹنگ کے دلدادہ تھے؟Node ID: 426766
-
صفیہ نے سعادت کو منٹو بنایاNode ID: 453721
-
اور سناؤ! کیا ہو رہا ہے؟ ابھی کال بیک کرتا ہوں۔۔۔Node ID: 454736