Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں فی گھنٹہ سات طلاقیں

طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے لیے لمحہ فکریہ ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
سعودی عرب میں طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مملکت کی تاریخ میں گذشتہ پانچ برس کے دوران طلاق کے سب سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ 
خانگی امور سے متعلق کیے جانے والے سروے میں جاری کیے جانے والے اعداد و شمار نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مملکت میں 5 برس کے دوران طلاق کے فی گھنٹہ سات واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

علیحدگی کی صورت میں بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

سروے میں کہا گیا ہے کہ معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی خطرناک علامت ہے اگر ان کا تدارک نہیں کیا گیا تو معاشرتی حالات بے انتہاء خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
سعودی نجی ٹی وی الاخباریہ کی جانب سے پیش کیے گئے پروگرام میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کو سب کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا گیا۔
پروگرام میں شادی میں کیے جانے والے اخراجات کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک متوسط شادی کا خرچ 60 ہزار ریال ہوتا ہے جو کہ 'شادی بینک' کی جانب سے بطور قرض مقرر کیا جاتا ہے۔
طلاق کی صورت میں معاشرے کو جو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تخمینہ تین ارب ریال سالانہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ سروے میں مذکورہ مالی خسارہ شادی کے لیے بینک سے لیے گئے قرض کی رقم کے حساب سے لگایا گیا ہے۔
سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی خسارے کا اوسط اندازہ لگایا گیا ہے اس سے بہت زیادہ نقصان ان خاندانوں کا ہوتا ہے جو ان حالات سے گزرتے ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں خاتون اور مرد کی نفسیات اور ان سے منسلک افراد بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔
سالانہ سروے رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں شادی کے رجحان میں کمی جبکہ طلاق کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لیے طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ایک خطرناک علامت کے طور پر مانا جاتا ہے اس کا تدارک معاشرتی طور پر کرنا لازمی ہے۔
طلاق کے رجحان کو کم کرنے کے لیے فکری سوچ اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے سعودی عرب میں محلے کی سطح پر (کونسلرز) مصالحتی کمیٹیاں بھی قائم ہیں، جہاں فریقین میں صلح کی کوشش کی جاتی ہے اگر صلح کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو نوبت طلاق تک نہیں آتی۔
اس حوالے سے ایک نفسیاتی ماہر کا کہنا تھا کہ 'طلاق ایک ایسا فعل ہے جس سے فریقین کو اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ طلاق محض دو افراد میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات دو خاندانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں'۔
ایک اور معاشرتی ماہر کا کہنا تھا کہ ایسے جوڑے جو صاحب اولاد بھی ہوں ان میںعلیحدگی ہونے کی صورت میں بچوں کی نفسیات مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے ، علیحدہ ہونے والے خاندان کے بچے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو انکے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ثابت  ہو تا ہے۔

فریقین غصے کو قابو میں رکھیں اور ایک دوسرے کو اسکا جائز مقام دیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

اصلاحی کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ 'ہماری کوشش ہوتی ہے کہ فریقین کو طلاق کے فی مابعدمنفی اثرات کے بارے میں سمجھائیں ۔ طلاق کے اکثر واقعات غصے کی حالت میں ہوتے ہیں اس لیے لوگوں کو چاہئے کہ غصے کو قابو میں رکھیں اور اپنے شریک حیات کو اسکا جائزمقام دیں'۔

شیئر: