Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رومانوی کردار کیے، منفی کردار کرنا بہت بڑا رِسک تھا‘

اداکار، ٹی وی میزبان اور ماڈل احسن خان کہتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں اور کوئی بھی چیلنجنگ کام کرنے سے گھبراتے نہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے احسن خان کا کہنا تھا کہ ’اڈاری‘ ڈرامے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے کا کردار کرنا بہت ہی چیلنجنگ اور رِسکی تھا، کیریئر کے ڈوب جانے کا خدشہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی خوف تھا کہ لوگ نفرت نہ کرنے لگیں لیکن میں نے وہ کردار صرف اس لیے کیا کہ اس طرح کے ایشوز کو ہائی لائٹ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے مجرموں کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہیے، لوگوں میں حوصلہ پیدا کرنا چاہیے کہ اگر ان کے کسی بچے کے ساتھ خدا نخواستہ ایسا کچھ ہو گیا ہے تو وہ آواز اٹھائیں۔

 

 احسن خان کا مزید کہنا تھا کہ ڈرامہ سیریل ’اڈاری‘ کیے ہوئے دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آ ج بھی میرا کردار لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہے اور یہی بطور اداکار میری کامیابی ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ صرف عام کردار نہیں تھا یہ ایک ایسا ایشو تھا جس کو سکرین پر دکھایا گیا۔‘
ہزاروں سال سے ایسا ہوتا آ رہا ہے کہ لوگوں کو شعور دینے کے لیے تھیٹر پر کھیل پیش کیے جاتے تھے۔ پا امتیاز کا کردار نیگیٹیو تو تھا ہی لیکن اہم بات یہ تھی کہ یہ ایشو بیسڈ تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے چاکلیٹی ہیرو کہا جاتا رہا ہے، ہمیشہ رومانوی کردار کیے اچانک سے نیگٹیو کردار کرنا بہت بڑا رِسک تھا، یہ بھی خوف تھا کہ میرے بچے گھر سے نکلیں گے تو لوگ انہیں کہیں گے کہ احسن ایسے شخص کا کردار کر رہا ہے جو بچوں کے سا تھ جنسی زیادتی کرتا ہے لیکن اللہ نے مجھے کامیابی سے نواز دیا سارے خدشے دور ہوگئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں ماڈلنگ، میزبانی اور اداکاری کو برابر انجوائے کرتا ہوں۔
ٹی وی ہو، فلم یا تھیٹر ہر ایک میں کام کرنے کا اپنا مزہ ہے میں نے لندن میں بھی تھیٹر کیا ہے سارے کام شوق اور لگن کے ساتھ کرتا ہوں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جو کام آتا ہے وہ فورا سے کر لیتا ہوں کچھ ایسے کام بھی آفر ہوتے ہیں جنہیں منع کر دیتا ہوں۔
احسن خان نے کہا کہ ’کام اپنی مرضی سے چنتا ہوں میزبانی کروں تو اس پر پوری توجہ ہوتی ہے رمضان ٹرانسمیشن کروں تو اس کو دل سے کرتا ہوں اور میں نے ابھی تک جتنی بار بھی رمضان ٹرانسمیشن کی ہے اس کو بہت انجوائے کیا ہے۔‘

احسن خان نے کہا کہ وہ مارننگ شوز کرنا پسند نہیں کرتے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

’دین کے حوالے سے میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے میری ذاتی اصلاح بھی ہوئی۔ جہاں تک ’بول‘ پر میرے شو ہوسٹ کرنے کی بات ہے تو یہ شو بالکل بھی بناوٹی سجاوٹی اور کتابی نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی ایسا سکرپٹ ہے جسے مجھے فالو کرنا پڑتا ہے نہ ہی کوئی خاص تیار ی کرتا ہوں بس مہمانوں کو بلاتا ہوں تو بات سے بات بڑھاتا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شو میں مہمانوں کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہیں رکھا ہوتا بس ہم تین لوگ ہوتے ہیں ایک میں اور دو مہمان، ہم بس ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہیں جنہیں مہمانوں کے ساتھ ساتھ دیکھنے والے بھی انجوائے کرتے ہیں۔‘
اس شو کی 50 سے زائد اقساط آن ایئر ہو چکی ہیں۔ بہت خوشی ہے کہ اس کام کو بھی دل سے کیا اور لوگوں نے سراہا۔
احسن خان نے کہا کہ میں مارننگ شوز نہیں کرتا ایسا نہیں ہے کہ میں ان کےخلاف ہوں بس میں ویسے ہی نہیں کرتا مجھے آفرز بھی آئیں لیکن منع کر دیا۔
کچھ لوگ مارننگ شوز کے میزبانوں پر بہت تنقید کرتے ہیں لیکن میں انہیں قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں سمجھتا، مجھے لگتا ہے کہ ہرمیزبان کے پیچھے ایک پوری ٹیم ہوتی ہے اس ٹیم کو چاہیے کہ وہ تخلیقی کونٹینٹ سامنے لیکر آئے اگر وہ تخلیقی کونٹینٹ پرڈیوس نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ وہ کچھ اور کام کر یں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اس وقت میرا کامیڈی ڈرامہ’ شاہ رخ کی سالیاں‘ آن ائیر ہے۔ خوشی ہے کہ شائقین اسے بہت سراہ رہے ہیں۔ میں نے اس قسم کی کامیڈی پہلی بار کی ہے۔‘

احسن خان نے مزید کہا کہ مجھے کام کرنے کا جنون ہے. فوٹو: سوشل میڈیا

جہاں تک ڈراموں میں کم نظر آنے کی بات ہے تو اس کی وجہ میرے دیگر پراجیکٹس ہیں جیسے پہلے میں رمضان کی ٹرانسمیشن کر رہا تھا، ایک فلم کی شوٹ چل رہی تھی، اس کے بعد اب بول ٹی وی پر شو کر رہا ہوں، وقت کی کمی کے باعث ڈراموں میں کم نظر آرہا ہوں لیکن بہت جلد فائزہ افتخار کے لکھے ہوئے ڈرامہ کی شوٹ شروع ہو رہی ہے۔
’یہاں یہ بات بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ڈرامہ سیریل آنگن اور الف میں بھی کام کیا ہے، میں نے چار پانچ ڈرامے پرڈیوس کیے اور مزید بھی کر رہا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ میں نے اچھا کام کیا ہے تو اسے سراہا نہیں گیا یا تسلیم نہیں کیا گیا میں نے جب بھی اچھا کام کیا اسے ضرور سراہا گیا ہے میرے پرستار جب سڑکوں اور بازاروں میں جیسے مجھے ملتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس پراجیکٹ کو کتنا پسند کر رہے ہیں۔‘
ہاں ایوارڈز ملتے ہیں یا نہیں یہ دوسری بات ہے لیکن یہاں بھی میں یہ کہوں گا کہ مجھے جب لگا کہ میں نے اچھا کام کیا ہے تو اس پر ایوارڈ ضرور ملا۔ مجھے لگا کہ ڈرامہ سیریل اڈاری اور موسم پر مجھے ایوارڈ ملنا چاہیے تو مجھے ملا، اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن سے مجھے آج سے آٹھ سال پہلے بہترین اداکار کا ایوارڈ صبا قمر کیساتھ ملا تب بھی میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ایوارڈ ملنا چاہیے۔
احسن خان نے مزید کہا کہ مجھے کام کرنے کا جنون ہے جہاں اور جب اچھا کام کرنے کا موقع ملتا ہے میں ضرور کرتا ہوں۔ لندن میں معروف تھیٹر کیا اس تھیٹر میں سولہ سترہ سو لوگ بیٹھتے ہیں وہاں پرفارم کرنا کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔
ہم نے وہاں ہیر رانجھا کو ٹرانسلیٹ کرکے پیش کیا اس ہال میں وہاں کے معروف اداکاربھی بیٹھے ہوئے تھے۔ لہذا تھیٹر پر کام کرنا ہمیشہ ہی یادگار رہا ہے۔

احسن کہتے ہیں ان کی کبھی کسی سے لڑائی نہیں ہوئی۔ فوٹو: فیس بک

’میں سمجھتا ہوں کہ یادگار کام کیا ہو تو اس سے ملنے والی شہرت دیرپا ہوتی ہے جو نظر شناس لوگ ہوتے ہیں وہ عزت دینا بھی جانتے ہیں اور لینا بھی۔‘
عارضی طور پر کسی کا بھی کچھ ویڈیو کے ذریعے وائرل ہو بھی جائے تو یہ طریقہ کار میرا کپ آف ٹی نہیں ہے مجھے لگتا ہے کہ کس نے کتنا کام کیا ہے اس پر بات ہونی چاہیے۔
سکینڈلز اور تصاویر کے ذریعے لوگوں کی داد لینا اور گالیاں کھانا میں پسند نہیں کرتا نہ ہی میرے خاندان نے مجھے یہ سکھایا ہے۔ آپ جس کام کے ماہر ہیں بس آپ کو وہی کرنا چاہیے۔
’پندرہ سال ہوچلے ہیں مجھے اس انڈسٹری میں آج تک میری کسی ڈائریکٹر پرڈیوسر یا ساتھی اداکار کیساتھ جھگڑا نہیں ہوا، ہاں نان پروفیشنلزم پر غصہ آتاہے۔
احسن خان کہتے ہیں کہ ہر اداکار کو اپنی عمر کے مطابق کردار کرنے چاہیں۔ اب پینتیس سال کا مرد اگر چوبیس سال کے لڑکوں والا کردار کرے گا تو وہ مناسب بات نہیں ہے، اور بہت سے کردار ہیں جو وہ کر سکتا ہے۔

احسن خان کے مطابق انہیں صبا قمر، مہوش حیات اور ماہرہ خان پسند ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر

باقی میرے لیے ایسے لوگوں کی تنقید معنی نہیں رکھتی جو ایک تو بلکل فارغ ہوتے ہیں اور دوسرا اپنا نام تک نہیں ظاہر کرتے۔ پری چہرہ، جانو اور ڈارلنگ جیسے نام رکھ کر کمنٹس کرنے والوں کی میرے نزدیک اہمیت نہیں، اہمیت ان کی ہے جو میرے چاہنے والے ہیں، میری فیملی ممبر اور دوست ہیں۔
’میں نے آج تک جتنے بھی کردار کیے ہیں وہ سب دل کے قریب ہیں کسی ایک کا نام لوں گا تو ناانصافی ہو گی، کام برائے کام نہیں کرتا اس لیے اگر تین اسکرپٹ آئے ہوں تو اگر ان میں سے ایک پسند آئے تو اسی پہ کام کرتا ہوں باقی دو کو رد کر دیتا ہوں۔
جہاں تک پسندیدہ آرٹسٹوں کا سوال ہے تو مجھے صبا قمر، مہوش حیات اور ماہرہ خان پسند ہیں۔
ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے احسن خان نے کہا کہ جب میں شوبز میں آیا تو اس وقت شان، معمر رانا اور بابر علی جیسے سٹار ز اپنے قدم جما چکے تھے۔
ان کو دیکھ کر شوق ہوا کہ میں بھی کام کروں ملک کا نام روشن کروں۔ مجھے کبھی بھی ریجکیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہاں جدوجہد کے دنوں میں بہت سارے لوگوں سے ملنا پڑتا تھا کہیں بات بن جاتی تھی کہیں نہیں بنتی تھی لیکن ریجیشکن کبھی نہیں ہوئی۔
ملکی حالات بہتر ہوں تو ہر شعبہ پھل پھول رہا ہوتا ہے لیکن اگر ملک میں صورتحال مستحکم نہ ہو تو پھر ہر شعبہ ہی بیٹھ جاتا ہے۔

احسن خان نے کہا کہ ’میں سیاست میں زیادہ دلچپسی نہیں رکھتا.‘ فوٹو: فیس بک

آخر میں انہوں نے کہا کہ بہت سارے فنکار کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ مہدی حسن، روحی بانو، لہری یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بہت کام کیا۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے فنکار جنہوں نے پاکستان کے لیے کام کیا اس کا نام روشن کیا ان کی صحت خراب ہونے پر ان کی مدد کی جائے۔
احسن خان نے مزید کہا کہ میں آٹھ سے دس گھنٹے کام کرتا ہوں۔ وقت ملے تو بیوی بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ اگر کام سے دیر رات کو فارغ ہوں تو پھر فجر کی نماز پڑھ کر سوتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ چھ سات گھنٹوں کی نیند پوری کروں۔
احسن خان نے کہا کہ ’میں سیاست میں زیادہ دلچپسی نہیں رکھتا نہ ہی ملکی معاملات میں مداخلت کرتا ہوں بس یہ ضرور کہتا ہوں کہ جو بھی ملکی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتا ہے وہ صرف باتیں نہ کرے بلکہ عملی کام کرکے دکھائے۔‘

شیئر: