Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بچوں سے زیادتی کے کیس کا فیصلہ 3 ماہ میں‘

بل کے مطابق بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہوگا، فائل فوٹو
پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعے کو زینب الرٹ بل پاس کردیا جس کے تحت ان افسران کو سزا سنائی جائے گی جو دو گھنٹے کے اندر بچے سے متعلق جرم پر ردِعمل نہیں دیں گے۔
قومی اسبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر بل منظور کیا۔ بل کے متن میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہو گا۔
مجرم کی سزا کے بارے میں بل میں لکھا گیا ہے کہ ’بچوں کے خلاف جرائم پرعمر قید، کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جا سکے گی۔
’بچے کو منقولہ جائیداد ہتھیانے کے لیے اغوا پر 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔‘
اس کے علاوہ 18 سال سے کم عمر بچوں کا اغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے اور گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لیے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی قائم کی جائے گی۔
بل کے مطابق ہیلپ لائن پر بچے کی گمشدگی، اغوا، زیادتی وغیرہ کی اطلاع فوری طور پر موبائل کمپنیوں کے ذریعے ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی اڈوں اور ریلوے سٹیشنز  کو دی جائے گی۔
اس کے علاوہ گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی سات سالہ بچی زینب کے نام سے یہ بل گذشتہ برس وقافی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا۔ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتا اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔
زینب الرٹ بل گذشتہ سال اکتوبر میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے پاس کیا تھا۔

شیئر: