Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاہ عبدالعزیز اور امریکی صدر کی پہلی ملاقات میں کیا ہوا؟

شاہ عبدالعزیز اور امریکی صدر کی ملاقات بحری جہاز پر ہوئی (فوٹو: روزویلٹ صدارتی میوزیم)
آج سے 75 سال قبل آج ہی کے روز 14 فروری 1945 کو سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز اور امریکی صدر فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ کے درمیان مصر میں ایک ایسی ملاقات ہوئی جس کے بارے میں کسی کو زیادہ معلوم نہیں تھا۔
یہ ایک ایسی ملاقات تھی جو ایک بحری جہاز پر سوئیز کینال میں ہوئی جس کے لیے سعودی شاہ نے اپنی صحرائی سرزمین کو پہلی بار چھوڑا تھا۔
ان دنوں دوسری عالمی جنگ کا اختتام چل رہا تھا اور امریکی صدر روزویلٹ سوویت یونین رہنما جوزف سٹالن اور برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کی ملاقات یالٹا میں طے ہوئی تھی۔ جس کا مقصد عالمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور جرمنی  اور یورپ کی بحالی کا جائزہ لینا اور اس کے لیے منصوبہ بندی کرنا تھا۔
یالٹا کانفرنس کے بعد امریکی صدر نے ہفتوں پر مشتمل واپسی کا سفر شروع کرنے میں جلد بازی نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنا شیڈول بڑھا لیا جو سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات کے لیے تھا۔
شاہ عبدالعزیز اپنی زندگی کے پہلے بیرون ملکی دورے پر نکلے تھے اور سوئیز کینال پہنچے تھے جہاں ایک امریکی بحری جہاز پر روزویلٹ ان کے منتظر تھے۔
اس ملاقات کے بعد کے وقت شاید کسی کا بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ان کا ساتھ کتنا طویل ہو گا کیونکہ ان دونوں کے درمیان مشترکات بہت کم تھیں۔ یہ ملاقات روزیلٹ کے لیے صرف ایک سیاحتی دورہ تھا۔
ابن سعود اور روزویلٹ کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات دنیا کی تاریخ کا ایک اہم موقع بن کر ابھری۔

جہاز میں امریکی صدر شاہ عبدالعزیز کا انتظار کر رہے تھے (فوٹو: روزویلٹ صدارتی میوزیم)

جہاز کے عرشے اور کھلے حصے کو ایک خوبصورت اور سحر انگیز قسم کے عرب طرز کے خیمے سے ڈھانپا گیا تھا جس کے لیے جہاز کے درمیان نصب توپ نما نالی کو بطور ستون استعمال کیا گیا تھا۔ نیچے غالیچے اور قالین بچھائے گئے تھے جن پر کرسی رکھی گئی تھی۔
جدہ سے 1200 کلومیٹر دور یو ایس ایس کوئنسی نامی کروزر پر امریکی صدر دو راتوں اور ایک دن سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔
امریکی صدر کے لیے بحری سفر یقیناً خطرناک تھا کیونکہ امریکہ بہرحال اس وقت نازی جرمنی کے ساتھ حالت جنگ میں تھا۔ کریمیا میں ہونے والی چرچل، سٹالن وغیرہ سے خفیہ ملاقات کے بعد واپس امریکہ جاتے ہوئے امریکی صدر شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کرنے جا رہے تھے۔
ایک ریٹائرڈ امریکی فوجی کرنل ولیم اے ایڈی کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں امریکہ کے سفارتی نمائندے کو سزا دی گئی کہ اس نے اس قدر شارٹ نوٹس پر اس ملاقات کا انتظام کروایا کیونکہ اس وقت تک بھی نہر سوئیز میں بم پھینکے جا رہے تھے اور اس وقت امریکی صدر اور سعودی شاہ کا اکٹھے ایک جہاز پر موجود ہونا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔

شاہ عبدالعزیز کی جانب سے امریکی صدر کو کچھ تحائف بھی پیش کیے گئے (فوٹو: روزویلٹ صدارتی میوزیم)

ستمبر 1943 میں اس وقت کے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے امریکہ کا دورہ کیا تھا، انہوں نے امریکہ کے مختلف شہروں کے دورے کیے۔ انہوں نے واپسی پر شاہ عبدالعزیز کو امریکہ کے بارے میں حوصلہ افزا معلومات دی تھیں اور ان کو بتایا تھا کہ امریکی صدر کو ڈاک ٹکٹس جمع کرنے کا شوق ہے۔
جس کے بعد مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں تعینات سپیشلسٹ تھامس کے ذریعے سعودی عرب کے ڈاک ٹکٹس بھی بھجوائے، جس کے جواب میں امریکی صدر نے شکریہ کا خط بھیجا اور یوں دونوں قائدین کے درمیان ملاقات کے لیے راہ ہموار ہوئی۔
ہوائی جہاز پر سفر کے خطرناک ہونے کی اطلاعات پر پروگرام بنایا گیا کہ کیوں نہ ملاقات بحری جہاز اور خفیہ طور پر کی جائے۔ اس لیے یہ ملاقات طے ہوئی۔ ؎
شاہ عبدالعزیز کے پہنچنے پر امریکی صدر نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور دونوں قائدین کے درمیان کچھ امور پر بات چیت بھی ہوئی۔

شاہ عبدالعزیز کے صاحبزادے شہزادہ خالد اور شہزادہ فیصل (فوٹو: روزویلٹ صدارتی میوزیم)

شاہ عبدالعزیز کی جانب سے امریکی صدر کو کچھ تحائف بھی پیش کیے گئے جن میں دو بیش قیمت تلواریں بھی شامل تھیں۔ شاہ عبدالعزیز اس ملاقات کے لیے اپنے وفد کے ساتھ پہنچے تھے۔
اس تاریخی ملاقات کے حوالے سے شہزادی ریما بنت بندر السعود جو کہ امریکہ میں سعودی عرب کی سفیر ہیں، نے ایک آرٹیکل لکھا جو عرب نیوز میں شائع ہوا ہے۔
شہزادی ریما لکھتی ہیں کہ ’شاہ عبدالعزیز اور صدر روزویلٹ دونوں جانتے تھے کہ بعد از جنگ یورپ اور جرمنی کی جلد بحالی میں کس چیز کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے اور کن امور پر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔‘
دونوں قائدین نے اس موقعے کو ایک نئے اتحاد اور پارٹنرشپ کے طور پر دیکھا جس سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں وسعت آئے گی۔ ایسی اقتصادی راہیں کھلیں گی جن سے ایسے بین الاقوامی ادارے وجود میں آئیں گے جو عالمی امن اور تحفظ کے لیے کردار ادا کریں گے۔
’دونوں قائدین نے اس نکتے کو پا لیا کہ عالمی امن میں ہمیشہ کے لیے استحکام پیدا کرنے کے لیے ایک نئے بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت ہو گی۔ اگر سعودی عرب اور امریکہ مل کر یہ نئی سوچ عالمی سطح پر ایک مشترکہ سکیورٹی کے طور پر اجاگر کریں تو دونوں قائدین اور قوموں کو اپنے صوبائی مفادات سے بڑھ کر دیکھنا اور سوچنا ہو گا۔‘

دونوں قائدین نے اس موقعے کو ایک نئے اتحاد اور پارٹنرشپ کے طور پر دیکھا (فوٹو: روزویلٹ صدارتی میوزیم)

شہزادی ریما مزید لکھتی ہیں ’یہ ملاقات دونوں لیڈروں کے درمیان ہونے والی پہلی اور واحد ملاقات تھی جس کے خوشگوار اثرات دونوں ممالک پر مرتب ہوئے۔‘
شاہ عبدالعزیز سعودی عرب کے بانی تھے اور ایک جنگجو بھی، جنہوں نے نوجوانی میں بادشاہت کو منظم کیا اور آگے بڑھایا۔
سعوی عرب کے شاہ اور امریکی صدر نے دونوں ممالک کے درمیان اس تعلق کی بنیاد رکھی جس نے آگے چل کر دنیا کو بدلنا تھا۔
شہزادی ریما لکھتی ہیں 75 سال قبل ہونے والی اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے مل کر بہت سے سنگ میل عبور کیے جن میں سے کچھ یہ ہیں۔
  • مل کر کمیونزم کو شکست دی۔
  • توانائی کی عالمی مارکیٹ کو مستحکم کیا۔
  • صدام حسین سے کویت کا قبضہ چھڑوایا۔
  • القاعدہ اور شدت پسند تنظیم داعش کے خاتمے کے لیے عالمی مہم چلائی گئی۔
  • باہمی طور پر دہشت گردی کے خلاف ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہوئیں۔
  • دونوں رہنمائوں کی اس ملاقات اور بصیرت کی وجہ سے بے نظیر خوشحالی آئی۔
  • یہ خوشحالی روزویلٹ اور شاہ عبدالعزیز کی 75 سال قبل ہونے والی ملاقات کا ورثہ ہے۔
  • تب سے اب تک دونوں قوموں کے درمیان رشتہ مضبوط ہے اور رہے گا۔ آگے بڑھنے کا رشتہ، خوشحالی کا رشتہ۔ ایک ایسا رشتہ جو استحکام اور تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ ایک ایسا رشتہ جو مکالمے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔
ایسے لوگ موجود ہیں جو 75 سال سے اس بحث میں پڑے ہیں کہ کیا 1945 میں ہونے والی وہ ملاقات تیل کے لیے تھی؟ فلسطین کے مسئلے کے حل کے بارے میں تھی؟ یا پھر دفاعی ہتھیاروں کی فروخت کے بارے میں تھی؟

روزویلٹ نے ابن سعود کو ویل چیئر تحفے میں دی (فوٹو: سپلائڈ)

جس کا جواب روزویلٹ کے پوتے ہال ڈیلینو روزویلٹ نے کچھ ان الفاظ میں دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ملاقات کا صرف ایک مقصد تھا اور وہ سعودی امریکا کے درمیان ایک دیرپا رشتہ قائم کرنا تھا۔
ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب ویژن 2030 کے تحت ایسے بے شمار مواقع ہیں جس سے دنیا مزید ترقی کی طرف جائے گی۔

شیئر: