Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خواتین کی وراثت سے محرومی اب نہیں‘

اس قانون کے تحت خواتین کو جائیداد کی ملکیت کا حق ہوگا (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی وراثتی جائیداد میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کا بل منظور کر لیا ہے جسے ’انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020‘ کا نام دیا گیا ہے۔
بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو فراڈ اور جعل سازی کے ذریعے جائیداد کی ملکیت سے محروم کیا جاتا ہے۔ لہذا لازم ہے کہ خواتین کے جائیداد کی ملکیت کے حق کو تحفظ دیا جائے۔
اس قانون کے تحت خواتین کو جائیداد کی ملکیت کا حق ہوگا۔
اس کے تحت خواتین کو جائیداد کے لیے ہراساں کرنے، دباؤ ڈالنے، فراڈ یا جبر اور اس طرح کے دیگر اقدامات کے ذریعے ان کے حق سے محروم کرنے جیسے دیگر اقدامات کو روکا جائے گا۔
جائیداد کے حق سے محروم کوئی بھی خاتون محتسب کے پاس شکایت دائر کر سکے گی۔ وراثتی حقوق سے متعلق بل میں عام شہریوں کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی دیگر شہری کے لیے صوبائی محتسب کے پاس شکایت درج کرا سکتے ہیں۔
’ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ‘ کے تحت خاتون محتسب کے اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے جو خواتین کو وراثتی حق دلانے میں ڈپٹی کمشنر سے لے کر صوبے کے دیگر اعلیٰ افسران کو احکامات دینے کی مجاذ ہوں گی۔
محتسب شکایت کا جائزہ لے گا اور  ضرورت محسوس ہونے پر مزید تحقیقات کے لیے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے سپرد کرے گا۔
ڈپٹی کمشنر  تمام ریکارڈ کا جائزہ لے کر 15 روز کے اندر رپورٹ محتسب کو جمع کرائے گا۔ محتسب شکایت موصول ہونے کے 60 دن کے اندر سماعت کرکے فیصلہ سنانے کا پابند ہوگا۔
ایکٹ کے مطابق اگر خاتون کو غیر قانونی طور پر جائیداد کی ملکیت سے محروم کیا گیا تو ملکیت خاتون کے حوالے کرانے کے لیے ڈی سی کو ہدایت دی جائے گی۔
محتسب متعلقہ پولیس سٹیشن کو احکامات پر عملدآمد کرانے  کی ہدایت بھی دے گا۔ اگر معاملے کی زیادہ تحقیات کی ضرورت ہو گی تو محتسب ریفرنس بنا کر اسے سول کورٹ میں بھی دائر کر سکے گا۔  
اگر خاتون کی جائیداد پر ملکیت کا معاملہ عدالت میں زیر التوا ہو تو وہ محتسب میں شکایت درج کر سکے گی۔

خواتین کے محتسب کے قیام سے عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوگا (فوٹو: سوشل میڈیا)

محتسب خاتون کی ملکیت کے معاملے پر خود بھی کارروائی کا آغاز کرنے کا اختیار رکھتا ہے، چاہے معاملہ عدالت میں زیر التوا ہو۔ محتسب معاملے پر رپورٹ عدالت کو پیش کرے گا جس میں عدالتی کارروائی کو کو ختم کرنے یا روکنے کی سفارش بھی کی جا سکے گی۔
اس قانون کے حوالے سے وفاقی محتسب برائے انسداد حراسیت کشمالہ طارق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند قانون سازی ہے۔ اس سے ان خواتین کو فائدہ ہوگا جن کے بھائی یا شوہر ان کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ خاتون محتسب ان کو دو مہینے میں بغیر کسی وکیل کے انصاف فراہم کرے گی۔‘
’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’اگر کوئی مقدمہ پہلے سے کسی عدالت میں موجود ہے تو محتسب ان کو جلد مقدمہ نمٹانے کی ہدایت بھی جاری کر سکے گا۔ اس بل پر حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد اور اس حوالے سے عوام کو بھر پور آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’قبضہ گروپ بیوہ خواتین کے گھر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ ان پر قبضہ کریں کیونکہ انھیں پتا ہوتا ہے کہ خواتین کچہریوں کے چکر کاٹنے سے ڈرتی ہیں۔ اس قانون کے تحت محتسب ایک شکایت پر نہ صرف وہ قبضہ چھڑوائے گا بلکہ اس کا کرایہ بھی لے کر دے گا۔ اس سے عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوگا۔‘

’اب سوال یہ ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرانے کی نیت بھی رکھتے ہیں؟‘ (سوشل میڈیا)

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’کے پی کے اسمبلی اس حوالے سے پہلے ہی قانون منظور کر چکی ہے۔ اب باقی صوبوں کو بھی چاہیے کہ وہ جلد از جلد قانون پاس کریں۔‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی طاہرہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ ’یہ بل اگرچہ احسن اقدام ہے مگر اس میں کافی تاخیر ہو گئی ہے۔ پارلیمان نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کس کی ذمہ داری ہے؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یقینا یہ ذمہ داری انتظامیہ اور حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرانے کی نیت بھی رکھتے ہیں؟‘
طاہرہ عبداللہ نے مطالبہ کیا کہ چونکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو چلے گئے ہیں اس لیے صوبے بھی اس طرح کی قانون سازی کریں تاکہ وہاں کی خواتین کو بھی وراثت میں ان کا جائز اور قانونی حق مل سکے اور کوئی انھیں ان کے حق سے محروم نہ کر سکے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں