Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ’زینب الرٹ بل‘ منظور

بلاول بھٹو نے امید ظاہر کی کہ ’زینب الرٹ بل‘ جلد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ فوٹو: آن لائن
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ’زینب الرٹ بل‘ کی منظوری دے دی ہے۔
کمیٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ یہ بل صرف اسلام آباد میں لاگو ہوگا تاہم چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی ’زینب الرٹ بل‘ پاس کرنا چاہیے تاکہ بچوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چئیرمین بلاول بھٹو کی زرداری کی سربراہی میں پیر کو میں ہوا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے بتایا کہ اجلاس میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حکومت پاکستان کے عالمی سطح پر مسئلے کو اجاگر کرنے کے اقدامات، ایف آئی اے کی جانب سے الیکٹرونک کرائمز بل کے تحت کاروائیوں اور زینب الرٹ بل زیر غور آئے۔
کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ کمیٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انسانی حقوق کمیٹی تو بل منظور کر رہی ہے لیکن حکومت یہ بل قومی اسمبلی میں پیش نہیں کر رہی۔
بلاول بھٹو نے امید ظاہر کی کہ ’زینب الرٹ بل‘ جلد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

پنجاب میں حال ہی میں متعدد بچوں سے زیادتی کے مزید کیسز سامنے آئے ہیں۔ فوٹو: اے پی

یاد رہے کہ وفاقی وزیر شیریں ’زینب الرٹ بل‘ کے پاس ہونے میں تاخیر پر بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ کمیٹی نے گذشتہ ماہ بل کی کچھ شقوں میں ترمیم کی تجویز دی تھی۔
ریپ کے بعد قتل کی جانے والی قصور کی سات سالہ بچی زینب کے نام سے بل چھ ماہ قبل وقافی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا۔ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتہ اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔
بل کے متن کے مطابق اسلام آباد میں ’تحفظ طفل ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا۔ زارا یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔
بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویژن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔
گمشدہ بچوں کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر پر سرکاری افسروں کو ایک سال تک قید کی سزا بھی ہو سکے گی۔

زینب کے قتل کے بعد بچوں سے زیادتی کے موضوع پر نئی بحث شروع ہوئی تھی۔ فوٹو: رؤئٹرز

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ انہوں نے آزادی صحافت کے حوالے سے ایف آئی اے کی وضاحتوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا جب بات سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور سماجی رضاکاروں کو ہراساں کرنے کی ہو تو ایف آئی اے فوراً حرکت میں آجاتی ہے۔ لیکن جب بات خواتین کو ہراساں کرنے کے کیسز کی ہو تو ایف آئی اے اپنا مؤثر کردار ادا نہیں کرتی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’میڈیا کے اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کرائی گئی، مختلف بیٹس کے رپورٹرز اور اینکرز نوکری سے نکالے گئے تاکہ تنقید کرنے والی آوازوں کو دبایا جا سکے۔‘
بلاول بھٹو کے مطابق دفتر خارجہ کے حکام نے قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بتایا گیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ حکومت نے عالمی پلیٹ فارمز پر اٹھایا ہے۔ اس پر کمیٹی نے دفتر خارجہ کے حکام سے سوال کیا کہ وزیراعظم نے کشمیر پر 58 ممالک کی حمایت کا بتایا مگر 16 ممالک کی حمایت سے لائی جانے والی قرارداد کو کیوں پیش نہیں کی گئی؟
دفتر خارجہ حکام نے اس حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس حوالے سے کیا گیا پروپیگنڈہ بے بنیاد ہے حکومت اس مسئلے پر ہر عالمی فورم پر آواز اٹھا رہی ہے۔
کمیٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے قرار دیا کہ ’حکومت کشمیر پر انسانی حقوق کے حوالے سے قرارداد پیش نہ کرنے پر ہمیں مطمئن نہیں کرسکی۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: