Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائبر کرائم کی شکایات میں تین گنا اضافہ

ایف آئی اے حکام کے مطابق 2019 میں سائبر کرائم کے ہزار مقدمات کیے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ’2019 میں جنسی استحصال اور انعامی رقم نکلنے کے جعلی پیغامات سمیت سائبر کرائم سے متعلقہ 56 ہزار 696 شکایات موصول ہوئیں جو 2018 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔‘
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر وقار چوہان نے جمعرات کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بریفنگ میں بتایا کہ ’2018 میں ایف آئی اے کو 19 ہزار شکایات موصول ہوئی تھیں جو 2019 میں 56 ہزار تک پہنچ گئی ہیں۔‘
انہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ’گذشتہ سال 56 ہزار شکایات میں سے صرف 27 ہزار پر کارروائی کی جا سکی جبکہ عملے اور تحقیقاتی افسران کی کمی کے باعث 19 ہزار سے زائد شکایات پر کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔‘
انعامی رقم کے جعلی میسجز کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں مشکلات
بریفنگ کے دوران کمیٹی کے ارکان نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ انعامی رقم کے جعلی میسجز اور فون کالز کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رکن کمیٹی ریاض پیرزادہ نے بتایا کہ ’کسی شخص نے چیئرمین نیب بن کر ان سے رابطہ کیا اور بات کرنا چاہی، جب اس شخص کو اپنے سرکاری نمبر سے رابطہ کرنے کو کہا گیا تو اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فوج کے افسران کے نام سے بھی لوگوں کو جعلی کالز کی جاتی ہیں۔‘
کمیٹی کی رکن اور تحریک انصاف کی پارلیمانی سیکرٹری کنول شوزب نے بتایا کہ ’انہیں متعدد بار انعامی رقم نکلنے کے پیغامات موصول ہوئے، میسجز بھیجنے والے کا نمبر پی ٹی اے کے ساتھ بھی شیئر کیا لیکن اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘

کمیٹی ارکان نے بتایا کہ انہیں بھی جعلی انعامی پیغامات ملتے رہتے ہیں

ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ وقار چوہان نے کمیٹی کو بتایا کہ ’جعلی انعامی رقم نکلنے کے میسجز اور کال کرنے والے نمبرز کے ڈیٹا تک رسائی تو مل جاتی ہے لیکن جب ایسے نمبرز کا کھوج لگایا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اکثر نمبرز دیہات میں کسی بوڑھی خاتون یا ادھیڑ عمر شخص کے نام پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ’جو لوگ یہ نمبرز استعمال کرتے ہیں ان تک رسائی کے لیے ایف آئی اے کے پاس ’لوکیٹرز‘ کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ کوئی نمبر کس جگہ سے استعمال ہو رہا ہے اس مقام تک رسائی حاصل کرنے کی سہولت آئی ایس آئی، آئی بی اور پنجاب پولیس کے پاس موجود ہے۔‘
حکام کے مطابق ’محدود وسائل کے باعث ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے پاس کال کرنے والے کی درست جگہ کا تعین کرنا ممکن نہیں ہوتا۔‘

ایف آئی اے کے مطابق اس کے پاس کال ٹریس کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

خیال رہے کہ پاکستان میں مختلف نمبرز سے موبائل فون صارفین کو انعامی رقم نکلنے کے پیغامات اکثر موصول ہوتے رہتے ہیں۔
جنسی استحصال کے مقدمات سب سے زیادہ
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملک میں سات کروڑ 40 لاکھ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور انٹرنیٹ سے جڑے جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے وقار چوہان نے کمیٹی کو بتایا کہ ’2019 میں 11 ہزار سے زائد شکایات پر انکوائری کی گئی اور سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ایک ہزار مقدمات درج کیے گئے۔‘

ریاض پیرزادہ کے مطابق انہیں کسی نے چیئرمین نیب بن کر کال کی (فوٹو: این اے سیکرٹریٹ)

وقار چوہان نے کہا کہ ’گذشتہ دو برسوں میں ایف آئی سائبر ونگ نے جنسی استحصال کے 500 سے زائد مقدمات درج کیے۔ 300 سے زائد مقدمات الیکٹرانک فراڈ، 100 سے زائد سائبر سٹاکنگ اور 50 کے قریب مقدمات نفرت انگیز مواد کے تحت قائم کیے گئے۔‘
رواں سال مختلف نوعیت کے 581 مقدمات درج کر کے 620 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔‘
وقار چوہان نے کمیٹی کو بتایا کہ ’سائبر کرائم ونگ کو موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 2022 تک ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے جس کے لیے ادارہ اپنی استعداد کار کو بڑھا رہا ہے۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: