Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’معاہدے کے بعد گیند افغانوں کے کورٹ میں‘

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد اب بال افغانوں کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے مل بیٹھنے کو تیار ہیں یا نہیں۔‘
دوحہ سے اردو نیوز کے ساتھ ٹیلی فون پر خصوصی انٹرویو میں وزیر خارجہ نے افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے پاکستان کے کردار کے بارے میں بتایا کہ ’اگر میں ایک جملے میں یہ کہوں کہ جو ہونے جا رہا ہے اگر پاکستان نہ ہوتا تو یہ دیکھنے میں نہ آتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا کردار اتنا کلیدی اور نمایاں رہا ہے کہ ہر لمحے اور ہر پل پاکستان کے سہارے کی ضرورت رہی۔ جو نا ممکن دکھائی دیتا تھا وہ آج حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’50 کے قریب ممالک کے وفود، وزرائے خارجہ، خصوصی نمائندگان معاہدے کی تقریب میں شریک ہو رہے ہیں۔ بہت بڑا بین الاقوامی ایونٹ ہے۔ پاکستان کو بھی اس معاہدے کے موقع پر موجود ہونے کے لیے دعوت دی گئی ہے۔‘
وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ اس معاہدے کے بعد انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’اب افغانوں کو مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق افغان وفد کے علاوہ افغان حکومت کا چھ رکنی وفد بھی اس تقریب میں شرکت کر رہا ہے۔ اس کے بعد افغانوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر بھی بات چیت ہوگی۔‘

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ 50 کے قریب ممالک کے وفود معاہدے کی تقریب میں شریک ہو رہے ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

اس سوال کے جواب میں کہ اس معاہدے سے پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ’اگر یہ معاہدہ ہوتا ہے تو اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے۔ پاکستان پر تو ایک بہت بڑا طبقہ الزام لگا رہا تھا کہ ساری دہشتگردی کی جڑ پاکستان ہے۔ وہاں دہشتگردی کی آماجگاہیں ہیں۔ وہاں سے دہشتگرد افغانستان آتے ہیں لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان ایسا نہیں کر رہا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی افواج نے اپنی سرزمین پر دہشتگردوں کو شکست دی ہے۔ افغان طالبان اور امریکہ کو جو ایک دوسرے سے جنگ و جدل میں مصروف تھے ان کو ایک میز پر لا بٹھایا ہے۔ نہ صرف لا بٹھایا بلکہ مذاکرات کے دوران جب مختلف ادوار میں تعطل پیدا ہوتا رہا وہاں ان کو آگے بڑھنے میں تعاون کیا۔‘
ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ’امن معاہدہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یہ کہہ دینا کہ کل معاہدہ ہو جائے گا اور اس کے بعد سب کچھ شیر و شکر ہو جائے گا۔ یہ حقیقت کے برعکس ہے ایسا نہیں ہوگا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سرخرو ہو چکا ہے اور اس سے  پاکستان کی نیت و دیانت داری واضح ہوگئی۔ 

شاہ محمود قریشی نے کہا اب افغانوں کو مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ آگے کیسے بڑھنا ہے (فوٹو:اے ایف پی)

اس سوال پر کہ اس معاہدے میں پاکستان کی کون سی بڑی تجویز مانی گئی؟ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ’پاکستان کی سب بڑی تجویز اور خواہش تو امن و استحکام کی ہے۔ دوسری بڑی خواہش یہ ہے کہ پاکستان سے لاکھوں افغان مہاجرین عزت کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تیسری خواہش یہ ہے کہ امن کے بعد ہمارے لیے وسط ایشیا کے دروازے کھلیں۔ ہماری دو طرفہ تجارت بڑھ سکے، ہماری بجلی گیس اور توانائی کی ضروریات وہاں سے پوری ہو سکیں۔‘
افغان امن معاہدے کا مسودہ نہ دکھائے جانے کے حوالے سے پاکستانی وزیرخارجہ  نے کہا کہ ’ایسی خبریں چلتی رہتی ہیں۔ معاہدہ اور مذاکرات طالبان اور امریکہ کے درمیان نہیں۔ پاکستان اور امریکہ یا پاکستان اور افغانستان کے درمیان نہیں ہیں۔ ہم نے تو سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔‘
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے ہنگاموں کے حوالے سے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اب اس حوالے سے بات ہو رہی ہے اور دنیا نوٹس بھی لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نئی دہلی میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر دنیا اس کا نوٹس نہ لے رہی ہوتی تو دنیا کے مشہور گلوکار، اداکار عامر عزیز کی نظموں کا ذکر نہ ہو رہا ہوتا۔ سلامتی کونسل، انسانی حقوق کونسل اور او سی آئی میں اس معاملے پر بات چیت نہ ہو رہی ہوتی اور بیانات نہ آ رہے ہوتے۔‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان اور امریکہ  کو ایک میز پر لا بٹھایا ہے (فوٹو:اے ایف پی)

وزیر خارجہ نے کہا کہ ’دنیا نے دیکھا کہ جب امریکی صدر اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی بغل گیر ہو رہے تھے تو دوسری طرف دلی جل رہا تھا۔ مسجدیں جلائی جا رہی تھیں، آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔‘
کورونا وائرس کے پاکستان اور چین کے درمیان معاشی تعلقات اور سی پیک پر اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کورونا کی وجہ سے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ہر گز کوئی کوئی فرق نہیں آیا۔ چینی حکومت نے کہا کہ کڑے وقت میں سب سے زیادہ پاکستان نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چینی صدر نے وزیراعظم کے ساتھ گفتگو میں یقین دہانی کرائی ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ چین اپنی ذمہ داریاں سمجھتا ہے اور اس نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے کا اعلان کیا ہے۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: