Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک اور امن معاہدہ مگر اصل چیلنج آنے والا وقت

پہلے معاہدے کے فریق افغانستان اور سوویت یونین تھے (فوٹو: امریکی این ایس اے)
ایک معاہدہ 1988 میں ہوا، ایک آج ہونے جا رہا ہے۔ وہ ایک طویل جنگ کے بعد ہوا۔ اب کے بار بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بھی امن کے نام پر ہوا یہ بھی انہی خطوط پر ہو رہا ہے۔ اتنی مشترکات کے باوجود معاہدے کے بعد کا منظر مختلف ہونا بہت ضروری ہوگا کیونکہ پہلے کے بعد جو ہوا وہ خوشگوار نہیں تھا۔
پہلے معاہدے کے فریق تھے افغانستان اور سوویت یونین، دوسرے کے طالبان اور امریکہ ہیں۔

سوویت یونین کا حملہ

اپریل 1978 میں انقلاب ثور تک داؤد خان کی حکومت تھی۔ اسی مہینے کمیونزم سے متاثر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان (پی ڈی پی اے) نے سوویت یونین کے اشارے پر حکومت کا تختہ الٹ دیا اور داؤد خان کو خاندان سمیت قتل کر دیا گیا، حفیظ اللہ امین صدر بنے۔
تاہم کمیونسٹ ایجنڈے کو افغانستان جیسے قبائلی معاشرے میں پذیرائی نہ ملی اور احتجاج شروع ہوا جو مسلح بغاوت میں بدل گیا اور سالویشن فرنٹ نامی تحریک شروع ہو گئی۔  کے جی بی افغانستان میں گہری جڑیں رکھتی تھی۔ اس کی رپورٹ پر 12 دسمبر 1979 کو سوویت یونین کے سربراہ لیونڈ برژیف نے حملے کا حکم دیا۔
تقریباً 10 سال چلنے والی یہ لڑائی دو ممالک تک محدود نہ رہی اس نے نہ صرف پڑوسی ملکوں کو متاثر کیا بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھے امریکہ تک کو کھینچ لائی، تاہم رہا وہ پردے کے پیچھے۔

سرد جنگ، گرم پانی

اس کو سرد جنگ کے علاوہ کمیونزم اور کیپٹلزم کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ضیاالحق کی حکومت تھی انہوں نے امریکہ کی مدد سے دنیا بھر سے مجاہدین کو جمع کیا۔ سوویت یونین معاشی طور پر اس قدر طویل جنگ کا متحمل نہیں تھا اور ٹوٹ گیا۔ اپریل 1988 میں جنیوا میں ہونے والے معاہدے کے بعد افواج وہاں سے نکل گئیں، پاکستان میں آج تک کسی نتیجے پر نہ پہنچنے والی ’گرم پانیوں‘ کی بحث بھی اسی جنگ کی دین ہے۔

صدر رونلڈ ریگن سے مجاہدین کے وفد کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی تھی (فوٹو ویکیپیڈیا)

روس کے بعد کا افغانستان

لڑائی کے عادی جنگجو گروہ جلد ہی آپس میں الجھ گئے، جن میں شمالی اتحاد، حزب اسلامی اور دوسرے گروہ شامل تھے جبکہ وار لارڈز بھی کود پڑے۔ 93 کے اواخر میں ’طالبان‘ نامی گروہ ملاعمر کی قیادت میں سامنے آیا اور دیگر گروپوں کا صفایا کرتے ہوئے 1996 میں اس وقت کے صدر ڈاکٹر نجیب قتل کر دیا اور اقتدار حاصل کر کے شرعی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا۔

نائن الیون

طالبان حکومت اپنے مخصوص انداز اور اسامہ بن لادن کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنی جن پر لندن دھماکوں کا الزام تھا، تاہم صورت حال اس وقت مزید گھمبیر ہو گئی جب گیارہ ستمبر 2001 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے ہوئے، جس کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ کو ٹھہرایا گیا اور امریکہ کی جانب سے حوالگی کا مطالبہ نہ مانے جانے پر افغانستان پر حملہ کر دیا گیا۔
طالبان کی حکومت ختم ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا تاہم طالبان کی جانب سے گوریلا کارروائیاں جاری رہیں، اس دوران ملک میں انتخابات بھی کروائے جاتے رہے، حامد کرزئی اور اشرف غنی صدور بنے۔

امریکہ افغان جنگ کے اثرات

2001 میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا اور طالبان کے اثرات پاکستان تک پہنچے، تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی جس نے مسلسل کئی سال تک مختلف شہروں میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔
2008 میں امریکی صدارت کی دوڑ میں شامل باراک اوبامہ نے صدر بش کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے افغان جنگ کی مخالفت کی اور کہا انہیں موقع ملا تو وہ افواج کو وہاں سے نکالیں گے تاہم ان کے صدر بننے کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک وہ دوسری بار بھی صدر منتخب ہو گئے۔

15 فروری 1989 کو آخری روسی فوجی افغانستان سے نکلا تھا (فوٹو اے ایف پی)

اسامہ بن لادن کی ہلاکت

ہر کچھ عرصہ بعد اسامہ بن لادن کی کوئی نہ کوئی ٹیپ سامنے آ جاتی لیکن پھر کچھ سال بعد ان کی جانب سے خاموشی چھا گئی جس پر کہا جانے لگا کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔
پھر اچانک مئی 2011 میں اوبامہ نے اسامہ کو ایبٹ آباد میں قتل کرنے کا اعلان کیا۔ اسے عشرے کی سب سے بڑی خبر قرار دیا گیا۔ دوسری طرف پاکستان میں بحث چھڑ گئی کہ امریکی فوجی پاکستان میں داخل ہوئے تو کسی کو علم کیوں نہ ہوا بعدازاں ایسے دعوے بھی ہوئے کہ یہ آپریشن پاکستان کی ہی اطلاعات پر کیا گیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد

2016 میں امریکہ میں ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے اگرچہ اوبامہ دور میں بھی طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کی خبریں گردش کرتی رہتیں لیکن کبھی صورت حال اس قدر ٹھوس ہوتی نہیں دیکھی گئی جیسا کہ اب ہو رہی ہے۔

طالبان امریکہ مذاکرات

2019 کے اواخر میں امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ نے کابل کے دورے کے بعد مذاکرات کی بحالی کا عندیہ دیا جسے کچھ روز بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی نمائندہ برائے افغان عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان کے وفد سے ملاقات کر کے عملی شکل دی۔ اس سے قبل ستمبر میں بھی دونوں ملک مذاکرات کے بعد معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے مذاکرات کو مردہ موضوع قرار دے دیا تھا جس پر طالبان کی جانب سے کہا گیا تھا ’مذاکرات ہماری نہیں امریکہ کی ضرورت ہے.‘

 1992 میں برہان الدین ربانی افغاستان کے صدر بنے تھے۔ فوٹو ویکیپیڈیا   

چند ہفتے بعد مذاکرات پھر شروع ہوئے، امریکہ نے کہا ’ابتدائی طور پر طالبان کو تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی مذاکرات کی بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ’سلسلہ وہیں سے جوڑا گیا ہے جہاں سے ٹوٹا تھا۔‘
طالبان کے وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات بھی کی تھی۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر وزیراعظم عمران خان سے دیگر حکام تک سب ہی معاہدے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

آج کا دن

21 فروری کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا بیان سامنے آیا ’29 فروری کو امریکہ طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے جا رہا ہے جس کا مقصد تشدد میں کمی لانا ہے‘ دوسری طرف طالبان نے بھی اس کی تصدیق کی۔
امریکہ کے نکلنے کے بعد کیا ہوگا؟
سب سے اہم سوال یہی ہے، طالبان فوج کا انخلا چاہتے ہیں، ایسی صورت حال 1988 میں روس کے ساتھ معاہدے کے وقت بھی تھی تاہم اس کے بعد جو کچھ ہوا اب کے ’تزویراتی مقاصد‘ کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایسا نہ ہونا دنیا کے لیے اصل چیلنج ہوگا۔
 

شیئر: