Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ، طالبان امن معاہدہ کن مراحل سے گزرا

افغانستان میں نائن الیون کے حملوں کے تقریباً 19 برس کی طویل جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور افغان طالبان 29 فروری یعنی آج امن معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں۔
امن معاہدے پر دستخط کا یہ عمل کامیابی سے طے پانے والے تشدد میں کمی لانے کے ان سات دنوں کے منصوبے کے بعد ہو رہا ہے جس پر دونوں فریقین نے اتفاق کیا تھا کہ دستخط سے پہلے تشدد سے پاک پر امن ماحول کو یقینی بنایا جائے گا۔
اس پیشرفت کو نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان عوام نے بھی سراہا۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقعے پر کہا کہ امن کو ایک موقع دے رہے ہیں۔
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رہا، ان میں ایک ملاقات ابو ظہبی میں بھی ہوئی۔
ماضی میں بھی مذاکرات کے کئی اعلانیہ اور بعض غیر اعلانیہ راؤنڈ منعقد ہو چکے ہیں لیکن یہ بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوئے اور بعض معاملات میں فریقین کے درمیان تلخی میں مزید اضافہ ہوا۔
ان مذاکرات میں بھی تعطل اس وقت سامنے آیا جب طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ستمبر 2019 میں مذاکرات جاری نہ رکھنے کا اعلان کیا گیا۔
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے پر پہنچنے کے لیے مذاکرات کا یہ سلسلہ دو ادوار پر مشتمل ہے۔
پہلا دور 23 جولائی 2018 سے لے کر ستمبر 2019 کے درمیان رہا۔ اس میں دونوں فریقین نے تقریباً آٹھ مرتبہ دوحہ میں طویل ملاقاتیں کیں۔
دوسرا دور 7 دسمبر 2019 سے 25 فروری 2020 تک چلا۔

اس پیشرفت کو نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان عوام نے بھی سراہا۔ فوٹو: اے ایف پی

دوسرے دور کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان دورے کے بعد کیا گیا۔
امریکی صدر جنہوں نے ستمبر 2019 میں مذاکرات معطل کیے تھے، نے نومبر میں بگرام ایئربیس کے ایک غیر اعلانیہ دورے کے موقعے پر اعلان کیا کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
طالبان نے دسمبر میں کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور اس کا آغاز وہاں سے کیا گیا ہے جہاں پر یہ معطل ہوئے۔
کابل حکومت نے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی کو دو غیر ملکی مغویوں کے بدلے نومبر میں رہا کیا۔
صدر ٹرمپ نے مغویوں کی رہائی کے لیے پاکستان کی سہولت کاری کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔
دسمبر میں طالبان نے کہا تھا کہ امن معاہدے پر صرف دستخط باقی ہے لیکن امریکہ کسی بھی معاہدے پر پہنچنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا تھا کہ افغانستان میں تشدد میں کمی کی جائے۔
نئے سال 2020 کے جنوری اور فروری میں یہ باتیں ذرائع کے حوالے سے آ رہی تھیں کہ افغان طالبان کے سربراہ سات دنوں کے لیے سیزفائر پر متفق ہو گئے ہیں تاہم اس بات کی تصدیق فروری کے وسط میں ہوئی  اور 21 فروری کو امریکہ اور طالبان نے اعلان کیا کہ سات دنوں کے لیے تشدد میں کمی کا آغاز ہو گیا ہے اور 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط ہوں گے۔
دونوں فریقین کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لہجے میں قدرے نرمی آئی 21 ستمبر 2018 کو نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی تقرری کے بعد یہ اشارہ دیا کہ وہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ہیں۔

ان مذاکرات میں تعطل طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر سامنے آیا۔ فائل فوٹو: روئٹرز

زلمے خلیل زاد امریکہ کے سینئر سفیر رہ چکے ہیں اور جنوبی ایشیا بلخصوص افغانستان کے امور کے حوالے سے تجربہ رکھتے ہیں۔
ماضی میں پاکستان کی جانب سے زلمے خلیل زاد کے پاکستان مخالف بیانات پر اعتراض سامنے آتے رہے لیکن افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان نے اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔

پہلی ملاقات

افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے حوالے سے 23 جولائی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پہلی ملاقات ہوئی جس میں امریکی سفیر اور پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز اور طالبان رہنما موجود تھے۔
افغان حکومت نے اس ملاقات میں شرکت نہیں کی تھی لیکن اس ملاقات سے باخبر تھی۔

دوسری ملاقات

دوسری ملاقات 13 اکتوبر 2018 کو ہوئی اس میں افغانستان کی موجودہ حالت اور سیاسی حل کے متعلق باتیں ہوئیں۔
طالبان کے نمائندوں کے ساتھ امریکی نمائندہ خصوصی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔

تیسری ملاقات

افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان تیسری ملاقات پاکستان کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی میں ہوئی تھی جس کی تصدیق پاکستان کے دفتر خارجہ کے اس وقت کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کی تھی۔

امریکہ، طالبان کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رہا۔ فوٹو: اے ایف پی

چوتھی ملاقات

جنوری 2019 میں چھ دن جاری رہنے والے ان مزاکرات کے بارے میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا تھا کہ ’ہم نے اہم معاملات پر خاطر خواہ پیش رفت کی ہے، ابھی کچھ معاملات حل کرنا باقی ہیں اور جب تک سب معاملات طے نہیں ہوتے تب تک کچھ حتمی بھی نہیں ہے۔‘

پانچویں ملاقات

افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا پانچواں دور 16 دن جاری رہا، مذاکرات کے اس دور کے حوالے سے ایسی خبریں سامنے آتی رہیں کہ دونوں فریقین، امریکی افواج کے انخلا، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششوں اور القاعدہ کے خلاف کیمپین کے لیے ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں تاہم امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا تھا کہ اس وقت تک کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہوگا جب تک تمام امور پر اتفاق نہ ہو۔
مذاکرات کا یہ دور 26 فروری سے 13 مارچ تک جاری رہا تھا۔
ان مذاکرات کے اختتام پر امریکی نمائندہ خصوصی نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’امن کے لیے شرائط میں نرمی آئی ہے اور یہ واضح ہے کہ تمام فریقین چاہتے ہیں کہ جنگ ختم ہو۔‘
’زلمے خلیل زاد کے دورے اور افغان طالبان کا ’موسم بہار کے آغاز پر نئی جارحانہ مہم کا آغاز‘
مذاکرات کے پانچویں دور کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے مارچ اور اپریل میں لندن، برسلز، پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے دورے کیے جس کا موضوع افغان امن عمل تھا۔
12 اپریل کو افغان طالبان نے اپنی نئی ’موسم بہار‘ کی کارروائیوں کا اعلان کیا۔
اپنی ٹویٹ میں مذمت کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ ایسے وقت میں جب سب افغانوں کو اپنے مستقبل کے لیے اکھٹے ہونا چاہیے، طالبان کی جانب سے یہ اعلان اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ طالبان ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

دوسرے دور کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان دورے کے بعد کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اپریل ہی میں بین الافغان مذاکرات، افغان رہنماؤں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے رک گئے تھے۔ ان کی تعداد 250 تھی جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔
افغان طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’یہ ایک کانفرنس ہے نہ کہ کابل کے کسی ہوٹل میں ہونے والی شادی۔‘
اسی مہینے کابل حکومت کی جانب سے جانب سے دو ہزار تین سو ارکان پر مشتمل ایک لویہ جرگہ بھی بلایا گیا تھا جس کا مقصد امن کا پیغام دینا تھا۔

چھٹی ملاقات

مذاکرات کا چھٹا دور 30 اپریل سے 9 مئی تک جاری رہا۔ دوحہ میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اس دور کو ’مثبت اور تعمیری‘ قرار دیا تھا۔

ساتویں ملاقات

مذاکرات کا ساتواں دور 30 جون کو شروع ہوا۔ اس دوران دوحہ میں افغان رہنماؤں اور افغان طالبان کے درمیان سات اور آٹھ جولائی کو ملاقات بھی ہوئی جس کو بین الافغان امن کانفرنس کا نام دیا گیا۔

امریکی حکام یہ امید بھی ظاہر کر رہے تھے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ 13 اگست تک طے پا جائے گا۔ فائل فوٹو: روئٹرز

یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب صوبہ غزنی میں افغان اینٹیلیجنس کے این ڈی ایس کے دفتر کو نشانہ بنایا گیا جس میں این ڈی ایس کے اہلکاروں اور بچوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے۔
اس ملاقات میں تقریباً 50 کے قریب افغان حکومت کے نمائندے، اپوزیشن کے اراکین، سول سوسائٹی اور خواتین بھی شریک تھیں۔ جبکہ طالبان کی جانب سے 17 نمائندے شریک ہوئے۔
طالبان کی جانب سے کوئی خاتون شریک نہیں تھی۔
تاہم یہ افغان وفد اپنی انفرادی حیثیت میں طالبان رہنماؤں سے ملا، افغان طالبان کا موقف رہا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ کابل حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ کابل حکومت کے چاہنے کے باوجود قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر نے ان سے بات چیت سے انکار کیا۔
افغانوں کے مابین اس امن کانفرنس کا اہتمام جرمنی اور قطر کی جانب سے کیا گیا۔
اس میں امریکہ نے براہ راست شرکت نہیں کی۔
اس سے پہلے اسی قسم کے دو دور ماسکو میں بھی ہوئے۔

اس سے پہلے اسی قسم کے دو دور ماسکو میں بھی ہوئے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

آٹھویں ملاقات

دوحہ میں بارہ اگست کو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور بھی کسی سمجھوتے کے بغیر ختم ہوگیا۔ فریقین کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں اپنے رہنماﺅں سے مشاورت کریں گے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آٹھویں دور کا آغاز 3 اگست کو ہوا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی حکام یہ امید بھی ظاہر کر رہے تھے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ 13 اگست تک طے پا جائے گا۔
اس دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جہاں مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا وہیں ان کی طرف سے ’افغان جنگ جیتنے اور افغانستان کے ایک بڑے حصے کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے‘ کا بیان آیا تھا جس کی کابل حکومت نے مذمت کی۔
کابل نے کہا تھا افغان رہنماؤں کی غیر حاضری میں بین الاقوامی ریاستوں کے سربراہ افغانستان کی قسمت کا تعین نہیں کر سکتے۔

شیئر: