پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ہزاروں کی تعداد میں قومی پرچم لگائے جانے چاہیے تاکہ بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کو پتہ چلے کہ وہ کہاں آئے ہیں۔
اسلام آباد میں آلودگی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’جب کوئی غیرملکی سربراہ مملکت اسلام آباد آتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں لگا کر اپنے اور دوسرے ممالک کے پرچم کی بے توقیری کی جاتی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کو شہر کا کیا حلیہ دکھاتے ہیں؟‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ’قومی پرچم ایئرپورٹ سے ایوان صدر تک ہر جگہ لگے ہونے چاہئیں۔ اسلام آباد میں کم از کم 25 سے 30 ہزار، لاہور میں 50 ہزار، کوئٹہ اور پشاور میں بھی دس بیس ہزار جبکہ کراچی شہر میں کم از کم ایک لاکھ قومی پرچم لگنے چاہئیں۔‘
مزید پڑھیں
-
منسٹر صاحب آپ کا سارا کچا چٹھا سامنے ہے: سپریم کورٹNode ID: 455656
-
شواہد دیں یا معافی مانگیں: سپریم کورٹNode ID: 460006
-
’محکموں کی لڑائی میں اسلام آباد کا بیڑا غرق‘Node ID: 462866
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سی ڈی اے کو قومی پرچم کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔ امریکہ جا کر دیکھیں وہاں کتنے جھنڈے لگے ہوئے ہیں۔ حالت جنگ میں امریکہ کے ہر گھر پر جھنڈا لگا ہوتا۔ امریکی عوام دوران جنگ گھروں پر جھنڈے لگا کر اظہار یکجہتی کرتی ہے۔‘
قبل ازیں عدالتی حکم پر چیئرمین سی ڈی اے عامر احمد علی اور میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’سی ڈی اے کا اپنے ملازمین پر کوئی کنٹرول نہیں۔ سی ڈی اے میں کلرک چیئرمین سے زیادہ طاقتور ہیں۔‘
چیئرمین سی ڈی اے عامر احمد علی نے عدالت کو بتایا کہ ملازمین نیشنل انڈسٹریل ریلیشن شپ کمیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جن کا تبادلہ کرتا ہوں وہ حکم امتناع لے آتے ہیں۔ این آئی آر سی کا تبادلے رکوانے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ کرپٹ مافیا کو معطلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرپٹ ملازمین اور افسران کے کیسز ایف آئی اے کو بھجوا رہا ہوں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اسلام آباد شہر کو اتنا پھیلایا کیوں جا رہا ہے؟ کیا پورے اسلام آباد کو صنعتی زون بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ماسٹر پلان میں صنعتی زون تھا؟ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ ’سیکٹر آئی نائن اور آئی ٹین کے صنعتی زون ماسٹر پلان میں شامل ہیں۔ اس وقت سٹیل کی 12 صنعتوں میں سے چھ چل رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایسی صنعتوں کو نہ چلائیں جو شہر آلودہ کریں۔ سی ڈی اے کے اقدامات کا رزلٹ نظر آنا چاہیے۔ سی ڈی اے رپورٹس میں اچھی انگریزی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ چاہتے ہیں معیشت خوشحالی کی طرف گامزن ہو۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’بیرون ملک سے زائد المعیاد اشیا منگوائی جاتی ہیں۔اسلام آباد کی اپنی فوڈ اتھارٹی بنائیں۔‘
عدالت نے میئر اسلام آباد کی سرزنش کرتے ہوئے پوچھا کہ ’اسلام آباد والوں کو ٹرانسپورٹ کیوں نہیں دیتے؟ کچھ نہیں کرنا تو کم از کم رکشے ہی چلا دیں تاکہ خواتین محفوظ سفر کر سکیں۔ سڑکوں سے نکل کر اب سکائی اور انڈر گراؤنڈ ٹرین کی طرف آئیں۔‘
میئر اسلام آباد نے کہا کہ سارا مسئلہ فنڈز کا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ساڑھے تین سال آپ کی پارٹی کی حکومت رہی تب آپ نے کیا کر لیا؟ میئر صاحب آپ صرف پارٹی کا جھنڈا اٹھا کر چل رہے ہیں۔‘
میئر نے عدالت سے کہا کہ ’اختیارات دیں تین ماہ میں شہر ٹھیک نہ کیا تو الٹا لٹکا دیں۔ چیف جسٹس بولے میئر صاحب آپ بہت بڑا چیلنج دے رہے ہیں۔ ملک بھر میں بلدیاتی اختیارات کا سنگین مسئلہ ہے۔ پورے ملک میں آرٹیکل 140 اے کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ بلدیاتی اختیارات کا رونا صرف اسلام آباد کا ہی نہیں پورے ملک کا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اسلام آباد کے نالوں میں تو کشتیاں چلنی چاہئیں۔ میئر نے عدالت کو بتایا کہ ہماری مشینری خراب اور فنڈز موجود نہیں ہیں۔ جس پر عدالت میں موجود چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ ’ہر کام کے لیے فنڈز کا رونا ڈالنا درست نہیں۔ ایم سی آئی کے نالے صاف کرنے کے لیے عملہ موجود ہے۔
عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا کہ ’دوران سماعت سی ڈی چیئرمین اور میئر نے اسلام آباد کو آلودگی سے پاک کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اب یقینی بنایا جائے انڈسٹریل ایریا میں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف قوانین پر عمل ہوگا۔‘
عدالت کا سی ڈی اے ملازمین کے تبادلوں سے متعلق این آئی آر سی کو دو ہفتے میں فیصلے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین این آئی آر سی دو ہفتے بعد عدالت کو رپورٹ پیش کریں۔
سپریم کورٹ نے بلدیاتی اختیارات منتقلی پر سیکرٹری داخلہ سے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ سیکرٹری داخلہ پیش ہو کر بتائیں آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر سٹون کرشنگ روکنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں فوری طور پر کرشنگ روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ جہاں کرشنگ ہوئی وہاں پر شجرکاری یقینی بنائی جائے۔ سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں