Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دلی: کیمپوں میں مقیم مسلمانوں پر کیا بیتی؟

دہلی فسادات میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 54 افراد ہو چکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انڈین دارالحکومت دہلی میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہونے والی بارش بہت سے لوگوں کے لیے پرکیف رہی ہوگی لیکن مصطفیٰ آباد میں عیدگاہ کے ریلیف کیمپ میں مقیم افراد پر یہ رات بھاری گزری۔
شمال مشرقی دلی میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 54 ہو چکی ہے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی اور کئی لاپتہ ہیں۔ ان فسادات میں لوگوں کے گھر بار جلا دیے گئے ہیں اور وہ کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
شاہین باغ آفیشل نامی ایک ہینڈل نے جمعرات کو کیمپوں کا منظر ٹویٹ کیا اور لکھا کہ ’دلی کے مصطفیٰ آباد عیدگاہ ریلیف کیمپ میں موسلادھار بارش ہو رہی ہے، چٹائیاں بھیگ چکی ہیں اور شامیانے سے پانی ٹپک رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’صرف 10 دن پہلے تک یہ لوگ اپنے گھر میں محفوظ تھے۔‘
دلی فسادات میں مسلمانوں کی املاک اور گھروں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے سرد مہری نے ایک عجیب ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ لوگ بے یقینی کا شکار ہیں اور کسی کو اپنا درد بتانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شخص نے کہا کہ یہ فسادات ہندو مسلم نہیں تھے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس بمقابلہ غیر بی جے پی/غیر آر ایس ایس تھے۔ مسلمانوں کا اب ان محلوں میں دوبارہ جاکر آباد ہونا مشکل ہے جہاں سے انہیں جان بچا کر بھاگنا پڑا ہے۔
ان کے مطابق ہندو پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مسلم پڑوسیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں بھی دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا۔
سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر ایسی تصاویر شیئر کی جارہی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
ملی گزٹ نامی ایک ٹویٹر صارف نے بارش سے متاثرہ کیمپ کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'یہ فسادات سے متاثرہ افراد کا کیمپ ہے جو رات کی بارش میں بھیگ چکا ہے۔ جب کرکٹ پچیں بھیگ جاتی ہیں تو حکومت انہیں سُکھانے کے لیے تمام چیزوں کا استعمال کرتی ہے یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر کا بھی۔‘
حکومت کی سرد مہری اور غیر مساوی سلوک کی خبریں انڈین میڈیا میں بھی روزانہ شائع ہو رہی ہیں۔
دلی کے دوسرے علاقوں میں روزانہ فسادات سے متاثر افراد کے لیے چندے اکٹھے کیے جا رہے ہیں، ان کے لیے کپڑے بھی مانگے جا رہے ہیں تاکہ متاثرین کی امداد ہو سکے۔ رات کی بارش کے بعد کپڑوں کے عطیے مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ متاثرین کے پاس ان کی شدید کمی ہے۔
دلی میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی نے ٹویٹ کی ہے کہ ان کے وزیر گوپال رائے اور مقامی ایم ایل اے حاجی یونس نے ریلیف کیمپ کا دورہ کیا ہے اور حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ فسادات سے متاثرہ افراد کو ہر حال میں جلد از جلد ریلیف دی جائے۔
 
 
لیکن جیمز ولیمز نامی صارف نے دو دن قبل دلی نسل کشی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’مصطفی آباد میں قائم کیا جانے والا ریلیف کیمپ بہت ہی خستہ اور نامناسب ہے۔ حکومت کا خیمے فراہم کرنے کے علاوہ کوئی کردار نہیں ہے۔ ایک ہزار لوگوں کے لیے صرف آٹھ ٹوائلٹ ہیں جن میں صفائی کا بحران ہے اور کھانے اور پانی کی بھی قلت ہے۔‘
 
 
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ یہاں قانونی اور طبی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔
دوسری جانب لوگوں کی دستاویزات جلا دی گئی ہیں اور انہیں دانستہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایسی صورت میں دلی کی صوبائی حکومت کی امداد بھی انہیں مشکل ہی سے ملتی نظر آرہی ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں