Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اب خواتین ڈرائیورز کے ساتھ سفر کو معیوب نہیں سمجھا جاتا‘

جمانہ ان خواتین میں شال ہے جنہوں نے پہلے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا تھا۔فوٹو الوطن
صبح سویرے سورج طلوع ہوتے ہی سعودی خاتون جمانہ وصل اللہ اپنی گاڑی لے کر جدہ کی سڑکوں پر نکلتی ہے۔
 مسافروں کو ان کی منزل پر پہنچانا ان کا کام ہے۔ یہ خاتون ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اسے اس بات پر فخر ہے کہ لوگ اسے ’کیپٹن جمانہ‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
الشرق الاوسط کے مطابق جمانہ کیب کمپنی میں کام کرنے والی ہزاروں سعودی لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ یہ پیشہ اب بھی سعودی عرب میں خواتین کے لیے نیا ہے۔
الشرق الاوسط سے گفتگو میں جمانہ نے کہا ’اسے صبح کے وقت کریم میں کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ صبح 7 بجے اور اس سے پہلے کا وقت جدہ شہر میں ٹریفک کے لحاظ سے بڑا مصروف رہتا ہے۔‘

یہ پیشہ اب بھی سعودی عرب میں خواتین کے لیے نیا ہے (فوٹو سوشل میڈیا)

جمانہ ان خواتین میں شامل ہے جنہوں نے جدہ شہر میں سب سے پہلے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس لیتے ہی ایپلی کیشن ٹیکسی سروس سے منسلک ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
جمانہ نے کہا ’چاہتی تھی کہ خواتین کی خدمت کروں۔ یہ کام جاری رکھا۔ اس سے مجھے فارغ اوقات میں اچھا منافع ملنے لگا۔‘
کیپٹن جمانہ نے مزید کہا ’ ڈرائیونگ میں زحمت ہوتی ہے مگر یہ کام جاری رکھنے کے سلسلے میں پرعزم  ہوں۔‘
’ایک علاقے سے دوسرے دور دراز علاقے تک سواری کو پہنچانا تھکا دیتا ہے۔ ڈرائیور کو آرام بھی کرنا ہوتا ہے اور اپنے کام پر دھیان بھی دینا پڑتا ہے۔‘
خواتین کی ڈرائیونگ سے متعلق سوال کے جواب میں جمانہ نے بتایا ’ شروع میں بعض لوگ اسے برا سمجھتے تھے۔ کئی گاہک یہ جاننے پر کہ انہیں خاتون ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنا ہوگا بکنگ کینسل کردیتے تھے۔ اب منظر نامہ بدل گیا ہے۔‘

’ اب تک میں 1600 لوگوں کو اپنی ٹیکسی کے ذریعے منزل تک پہنچا چکی ہوں۔‘ (فوٹو سوشل میڈیا)

جمانہ کا خیال ہے ’مردوں کے مقابلے میں خواتین ڈرائیور زیادہ وقت دے پاتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اکثر مرد ڈیوٹی پر ہوتے ہیں یا کاروبار پر ہوتے ہیں۔ ایپلی کیشن ٹیکسی کمپنی کو ان کے لیے اضافی وقت دینا مشکل ہوتا ہے۔ خواتین فارغ ہوتی ہیں اور وہ زیادہ وقت دے پاتی ہیں۔‘
سعودی خاتون امواج محمد نے بتایا ’ ٹیکسی  چلانے سے پہلے ملازمت کر رہی  تھی جو چھوڑ دی ہے۔‘
’ماہانہ چار ہزار سے سات ہزار ریال تک کما لیتی  ہوں۔ جو لوگ پابندی سے یہ کام مسلسل کرتے رہتے ہیں انہیں ماہانہ دس ہزار ریال تک محنتانہ مل جاتا ہے۔‘
امواج نے بتایا ’ 20 ماہ قبل ڈرائیونگ شروع کی تھی۔ اسے لگتا ہے کہ اس کا یہ کام بے حد مناسب ہے۔‘
اس سوال پر کہ ٹیکسی ڈرائیور کے پیشے کو اپنانے میں کیا مشکلات پیش آرہی ہیں امواج نے کہا ’واحد چیلنج ہمارا معاشرہ ہے۔ اب بھی سعودی شہری ڈرائیور خواتین کے سلسلے میں دو فریقوں میں تقسیم ہیں۔‘
کیپٹن امواج کا کہنا تھا ’اسے گپ شپ کرنا اچھا لگتا ہے۔ بعض سواریاں مجھ سے ڈرائیونگ کا پیشہ اپنانے پر جرح کرتی ہیں۔ کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ کتنے عرصے سے کام کر رہی ہو اور جب میں بتاتی ہوں کہ طویل عرصے سے گاڑی چلا رہی ہوں تو وہ سکون کا سانس لیتے ہیں۔‘
’ اب تک میں 1600 لوگوں کو اپنی ٹیکسی کے ذریعے منزل تک پہنچا چکی ہوں۔‘
خواتین کو سعودی عرب میں ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر سعودی عرب اور بیرونی دنیا میں یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ آئندہ غیر ملکی ڈرائیوروں کے لیے مشکل ہوگی نیا منظر نامہ ظاہر کررہا ہے کہ سعودی ڈرائیور خواتین ٹیکسی چلانے والے غیر ملکی ڈرائیورز حضرات ہی نہیں بلکہ سعودی ڈرائیوروں کی بھی حریف بنتی جارہی ہیں۔

شیئر: