Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اکھٹے بیٹھ کر کھائیں پئیں گے اور کورونا سے بھی لڑیں گے‘

لوگ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ وہ شاید ریستورانوں اور تھیٹر میں نہیں جا سکیں گے (فوٹو: روئٹرز)
دوپہر کے کھانے کا وقت ہے اور پیرس کے مصروف ریستورانوں کی بالکونیوں پر سینکڑوں افراد کھانے پینے، دھوپ سینکنے، سگریٹ نوشی اور خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ وہ بضد ہیں کہ کورونا وائرس ان کے زندگی گزارنے کے روایتی طریقہ کار میں حائل نہیں ہوسکتا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اٹلی اگرچہ لاک ڈاؤن ہو چکا ہے جبکہ فرانس کے دیگر ہمسایہ ممالک سپین اور بلجیئم نے بھی اپنے بازار اور کیفے بند کر دیے ہیں لیکن فرانسیسی حکومت نے اپنے ملک میں بھرپور سماجی زندگی اور کیفے شاپس کو کھلا رکھا ہوا ہے۔ 
حکومت کی جانب سے عام شہریوں کو صرف یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ریستورانوں میں جائیں تو اپنی میزوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھیں تاکہ کورونا سے بچ سکیں۔
جمعرات کو ٹی وی پر نشر ہونے والے خطاب میں فرانسیسی صدر ایمانوائیل میخواں نے سکولوں کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی میل جول سے پرہیز کریں۔
واضح رہے کہ فرانس میں کورونا سے اب تک 61 افراد ہلاک جبکہ تین ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔
ایک بڑے کاروبار کی مالک الیگزینڈرا بیرونٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک تناؤ کا ماحول ہے کہ ہر چیز کو بند کر کے گھر بیٹھ جائیں۔ ہمیں محتاط لیکن ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے۔ یہ زندگی میں ضروری ہے۔‘
ان کے بقول ’میں تو یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ اگر سنیما گھروں اور ریستورانوں پر پابندی لگ گئی، حتیٰ کہ دوستوں سے بھی نہ ملا گیا تو کیا ہوگا۔‘
اٹلی جو یورپ میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور جہاں سب سے زیادہ اموات ہوئیں، نے وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد بڑھنے پر اپنے بازار اور ریستوران بند اور تفریحی سرگرمیاں معطل کر رکھی ہیں۔
نوجوان فرانسیسی بزنس ایگزیکٹو کلیمنس گلرنز کی کمپنی نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ وہ پیر سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر کام کریں۔
اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دوپہرکا کھانا کھاتے ہوئے وہ حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات سے خوش نظر نہیں آئیں۔

لوگوں کو خدشہ ہے کہ ہم بھی اٹلی کی طرح بند ہو جائیں گے (فوٹو: روئٹرز)

ان کے بقول ’ہم نے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ساتھیوں کے کھانے کا پروگرام رکھا ہے لیکن پیر سے ہم اپنے گھروں سے کام کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم محتاط رہنے کی کوشش کریں گے لیکن اپنی سماجی زندگی بھی جاری رکھیں گے جو کہ ضروری ہے۔‘
دوسری جانب کورونا کی وجہ سے اٹھائے گئے اقدامات کا بھی اپنا اثر ہے۔ اس سے نہ صرف کھیل اور دیگر سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں بلکہ دنیا کا سب سے زیادہ وزٹ کیے جانے والا عجائب گھر ’لُوور‘ بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کیا جا رہا ہے۔
پیرس کے وسط میں کیفے چلانے والے مائیکل گومس دوپہر کے کھانے کے وقت لوگوں کی کثیر تعداد کے باوجود پریشان نظر آ رہے ہیں۔

 گاہکوں کو صحت کے اصولوں پر عمل کرنے کا کہنا بڑا چیلنج ہے (فوٹو: روئٹرز)

رواں ماہ کے آغاز سے اب تک ان کا کاروبار 30 فیصد کم ہو چکا ہے، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ صورت حال مزید کتنا عرصہ چلے گی اور انہیں خدشہ ہے کہ کام کے اوقات بھی کم کرنا پڑیں گے۔ ؎
تاہم ان کے لیے اس وقت بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے گاہکوں سے صحت کے قومی اصولوں پر عمل کرائیں اور اپنی میزوں کے درمیان فاصلہ رکھیں جو کہ آسان نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم انہیں (گاہکوں کو) یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ ایک دوسرے کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ رکھیں کیونکہ اس سے وہ مزید خوف زدہ ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔‘

شیئر: