Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم نے کون سے حفاظتی اقدامات کر لیے؟

پاکستان میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 28 ہوگئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بچپن سے ہی کچھ ایسی عجیب طبیعت پائی ہے کہ کوئی سمجھا لے، منع کر لے، ہمیں کرنا وہی ہے جس بات کی تنبیہہ کی جائے۔ بچپن میں امی کو یوں تو ہمیں منع کرنے کی کم ہی نوبت آئی کیونکہ ہم فطرتاً شریف تھے۔
جی، اپنے والدین کے تئیں شریف تھے۔ اگر شریف بچہ وہی ہوتا ہے جو بچپنے سے عاری ہو اور بڑوں کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے، باتیں کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہو تو صاحب ہم شریف ہی تھے۔
لیکن اگر کبھی انہوں نے کسی چیز سے منع کیا تو ہم نے ٹھان لی کہ ایسی کی تیسی۔ یہ تو ہم لازمی کریں گے۔ اس زمانے کے والدین زیادہ لمبی بحث میں نہیں پڑتے تھے۔ بس کھل کر کہہ دیتے تھے کہ نہیں تو نہیں۔ ہمارے والدین باقیوں کے برعکس تھے۔ لہٰذا وہ ہمیں نفع نقصان ضرور بتاتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی تھی۔ 
گھر کے قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی جس پر رنگ برنگے جنگلی پھول اگے ہوئے تھے۔ ڈھلوان پر سڑک سی بنی ہوئی تھی جس کے ارد گرد گھر تھے۔ ہماری چھت اور ہمسائیوں کا صحن قریباً ایک ہی لیول پر تھے۔ بچپن میں اس ڈھلوان پر بھاگنے کا بہت شوق تھا۔ امی نے بارہا منع کیا کہ وہاں مت بھاگا کرو۔ نیچے آتے ہوئے رفتار بڑھ جاتی ہے۔ کنٹرول نہیں رہتا۔ گر جاؤ گی۔
لیکن وہ سعدیہ ہی کیا جو دل میں آئی کو رد کر دے!
’کچھ نہیں ہوتا، امی!‘

 کورونا کی حفاظتی تدابیر میں ہاتھ صابن سے دھونے کی ہدایت کی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ہم نے اپنی دوڑ جاری رکھی یہاں تک کہ ایک دن بھاگتے بھاگتے منہ کے بل گرے اور گھٹنے بری طرح چھلوا بیٹھے۔ جب خون بہا اور ڈیٹول سے صفائی کرتے ہوئے شدید جلن ہوئی تو احساس ہوا کہ ’کچھ کچھ ہوتا ہے۔‘ بس اس کے بعد پہاڑی پر میراتھن دوڑ لگانے سے گریز کیا۔
امی ہمیشہ پہاڑی پر لگے جنگلی پھول توڑنے سے بھی منع کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سے خارش ہو جائے گی۔ اب یہ کیا بات ہوئی؟ 
’کچھ نہیں ہوتا، امی!‘
ان گلابی، پیلے، اور اودے پھولوں کا گلدستہ بنانا تو ہمارا پیدائشی حق اور اخلاقی فریضہ تھا جو ہم  نے پورا کیا اور پوری جانفشانی سے کیا۔ انجام وہی ہوا جو آپ کے بھی ذہنوں میں چل رہا ہے۔ ہاتھ بھی مارے الرجی کے لال پیلے ہو گئے۔ تب احساس ہوا کہ امی نے جو کہا تھا بالکل ٹھیک کہا تھا۔ 
بائی دا وے، اس کالم میں ہمارا مقصد ماں کی عظمت اور ان کی فرمانبرداری کے فضائل بیان کرنا ہرگز نہیں۔ یہ فرض ہم کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھیں گے۔ آپ محض اس ڈر سے کالم پڑھنا مت بند کیجئے کہ بھاشن شروع ہونے کو ہے۔
ہولڈ آن! 
صاحب، خدا لگتی کہیں تو اس ’کچھ نہیں ہوتا، امی‘ کے نعرے نے ہی سب کچھ کروایا۔ کیوں نہیں ہوتا بھئی؟ ہوتا ہے، ضرور ہوتا ہے، جو ہونا ہو ہو کر رہتا ہے۔ اور جب ہو رہتا ہے تو انسان کو احساس ہوتا ہے کہ افوہ شاید کچھ ہوگیا۔ 

کورونا کے پیش نظر ایران سے لوٹنے والوں کے لیے خیمے لگائے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہ ہمارا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی نعرہ ہے۔ ہمارا معاشرہ ’کچھ نہیں ہوتا‘ کے آسرے پر ہی آج وہاں پہنچا ہے جہاں سب یا تو ہو چکا ہے یا ہونے کے درپے ہے۔ چالیس سال کی عمر سے اوپر کے زیادہ تر اشخاص ذیابیطس یا بلند فشار خون میں مبتلا ہیں۔ چھوٹے بچوں تک کا وزن تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ زیادہ تر پاکستانیوں کی اپنے بڑھاپے کے لیے کوئی پلاننگ نہیں۔ آبادی کا عفریت ہے کہ منہ سے آگ اگلے جا رہا ہے۔ فضائی آلودگی اس اوج کمال تک پہنچ چکی ہے کہ سانس لینا دوبھر ہے۔
لیکن۔۔۔
’کچھ نہیں ہوتا۔‘
آج کل کورونا وائرس کا دور دورہ ہے جس کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ پاکستان میں لگ بھگ اکیس کیس ہی ہیں۔ لیکن حقیقت سے کون واقف نہیں۔ کورونا وائرس کے علاج کی پہلی شرط مریض کا تمام لوگوں سے علیحدہ ہونا ہے۔ توبہ کیجیے۔
 یہاں نزلے زکام کے مریض بھی ذرا ذرا سے بچوں کو چوم لیتے ہیں۔ کسی کو اس بات سے چنداں غرض نہیں ہوتی کہ اس کا مرض کسی دوسرے کو کس حد تک پھیل سکتا ہے۔ یہاں تو اگر شوہر کو کورونا وائرس ہو جائے تو بھی بیوی ہی کی ڈیوٹی ہوگی کہ دیسی مرغ کی یخنی کمرے میں پہنچائے اور ہر گھنٹے کے بعد اس کا ٹمپریچر دیکھے۔
اگر کسی قسم کے حفاظتی امور کا مشورہ دیا جائے تو جواب یہی آئے گا ’کچھ نہیں ہوتا۔‘

دنیا بھر میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 5000 سے تجاوز کر گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ماسوائے ماسک پہن کر گھومنے کے ہم نے کون سے حفاظتی اقدامات کر لیے؟ کیا کسی حکومتی عہدے دار کی جانب سے کوئی بیان آیا یا کسی نے عالمی ادارہ صحت کا پیغام عوام تک پہنچانے کی زحمت کی؟ ہوائی اڈوں پر لوگوں کی تشخیص ہو چکی کیا؟
وہی گردان۔۔۔
’کچھ نہیں ہوتا۔‘
خدا بھلا کرے اٹلی کو بھی یہی گمان تھا۔ اب وہاں اموات بوقت لکھائی ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں۔ جب تک یہ کالم آپ تک آئے گا یہ تعداد کہیں آگے ہوگی۔ یوں تو ہماری آواز نقار خانے میں طوطی کی سی ہے۔
لیکن  اگر آپ کو برا نہ لگے تو یہ بات کہتے چلیں کہ ہوتا تب ہی ہے جب انسان کو لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ جان اللہ کی امانت ہے لیکن احتیاط بھی اسی رب کا حکم ہے۔ مان لیجیے ورنہ آپ بھی پہاڑی سے پھسل جائیں گے اور گھٹنوں سے خون بہنے لگے گا۔ اپنا خیال رکھیے گا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں