Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستانی ڈرائیوروں کی مفت ٹیکسی سروس‘

فری ٹیکسی سروس کو ’Fight Against COVID19‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سپین کے شہر بارسلونا میں مقیم پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں نے کورونا وائرس کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے لیے مفت ٹیکسی سروس کا آغاز کر دیا ہے۔
ٹیکسی ڈرائیوروں نے اس مقصد کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا ہے جس میں ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کے عملے کے افراد بھی شامل ہیں۔ جس کو جہاں بھی ٹیکسی کی ضرورت ہوتی ہے اس واٹس ایپ گروپ میں میسج آتا ہے تو قریب ترین موجود ڈرائیور بنا کسی حجت کے اس میسج کے جواب میں پہنچنے کا بتا کر متعلقہ عملے کے فرد کو خدمات فراہم کرنے پہنچ جاتا ہے۔  
اس حوالے سے باضابطہ تشہیری مہم بھی چلائی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر عملہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔
پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اپنے اس اقدام کے باعث نہ صرف کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما طبی عملے کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنے ہیں بلکہ سپین کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے بھی ان کے اقدام کو سراہا ہے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور سید شیراز نے کہا ’کورونا وائرس کے خلاف ڈاکٹرز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ایک دوست شہباز احمد کھٹانہ نے یہ آئیڈیا سوچا اور باقی دوستوں کو اعتماد میں لیا۔ ہم نے ان کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے 24 گھنٹے مفت ٹیکسی سروس کا آغاز کیا۔ ہم ڈاکٹرز اور دیگر عملے کو ان کے گھر سے ہسپتال اور ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال پہنچا رہے ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے اس مہم کو ’Fight Against COVID19‘ کا نام دیا ہے۔ اب تک 130 کے قریب رضا کار ڈرائیور ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہو چکے ہیں۔ صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ ہمارے دیکھا دیکھی سپینش ڈرائیور بھی ہمارے ساتھ اس مہم کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہم سب کے نمبرز تمام ہسپتالوں کے استقبالیہ پر موجود ہیں اور وہ بوقت ضرورت بلاجھجک ہمیں میسج کر دیتے ہیں۔‘

سپین میں پاکستانی ڈرائیوروں کے اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔

اس اقدام کے محرک شہباز احمد کھٹانہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس طرح کی خدمات سے ایک تو معاشرتی انضمام اور دوسرا اپنے ملک کی اصل پہچان کروانے کا موقع ملتا ہے۔ ہم نے یہاں رہ کر ثابت کیا ہے کہ پاکستانی قوم محنت پر یقین رکھتی ہے اور اسی محنت کے بل بوتے پر اپنا مقام بنایا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپین نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ اب مشکل کی اس گھڑی میں قرض لوٹانے کا وقت ہے۔ ہماری اس کوشش کو سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے سراہا ہے۔ وہ اخبارات جو کچھ سال پہلے ہمارے خلاف لکھتے تھے اب ہمارے حق میں لکھ رہے ہیں۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم پاکستان کے سفیر ہیں اور اپنے جھنڈے کو اچھے انداز میں بلند کیا ہے۔‘ 
ٹیکسی ڈرائیوروں نے مفت ٹیکسی سروس سے مستفید ہونے والے طبی عملے کے ساتھ دوران سفر نہ صرف سیلفیاں بنائی ہیں بلکہ اس اقدام بارے ان کے تاثرات بھی ریکارڈ کیے ہیں۔ 
پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خالد محمود نے اپنے ساتھ سفر کرنے والی نرس سونیا سے پوچھا کہ وہ فری ٹیکسی سروس بارے کیا کہتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میں اس وقت ہسپتال کی طرف جا رہی ہوں اور مجھے واقعی جلدی پہنچنا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سڑک پر گاڑیاں کم ہیں جس کی وجہ سے مشکل ہو سکتی تھی۔ میں اور میرے ساتھی پاکستانیوں کے اس اقدام سے آگاہ ہیں اور مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ آپ اچھا کام کرنا جانتے ہیں۔ میرے پاس شکریہ ادا کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔‘ 

ٹیکسی ڈرائیوروں نے اس مقصد کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا ہے  (فوٹو: وکیپیڈیا)

ایک اور ٹیکسی ڈرائیور قاسم گجر نے اپنے ساتھ سفر کرنے والی خاتون ڈاکٹر سے پوچھا کہ یہ اقدام ان کے لیے کچھ اہمیت رکھتا ہے؟ خاتون نے جواب دیا کہ ’آپ سب یقیناً خوبصورت کام کر رہے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے مشکل اور اہم وقت ہے۔ ہمیں اس سے نکلنے کے لیے اپنے حصے کا اچھا کام کرنا ہے۔ آپ نے اپنا کردار ادا کیا جس پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔‘
صرف طبی عملہ ہی نہیں بلکہ سپین کی ایک مقامی اخبار ’ایم سی این میٹروپولی ابیرٹا‘ نے بھی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے لکھا کہ اس سے طبی عملے کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی زندگیاں آسان بنانے کا بہترین آئیڈیا ہے۔ 
ایک خاتون سیاست دان اناسورا نے ٹویٹ کیا کہ ’پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں نے مفت ٹیکسی سروس کا آغاز کرکے طبی عملے سے یکجہتی کا بہترین طریقہ استعمال کیا ہے۔ یہ مشکل وقت ہے جو انسانیت کا معیار ماپنے کا بہترین پیمانہ ہے۔ براوو، اس کے ساتھ ہی انہوں نے تشہیری پوسٹر بھی شیئر کیا جسے کئی ایک ویریفائیڈ ٹوئٹر اکاؤنٹ سمیت 76 افراد نے ری ٹویٹ کیا۔‘

سپین میں کم و بیش 80 ہزار پاکستانی مقیم ہیں جن میں سے 25 ہزار بارسلونا میں رہتے ہیں۔ صرف بارسلونا شہر میں دو ہزار پاکستانی ٹیکسی سیکٹر سے وابستہ ہیں۔ اس سے قبل سپین میں دہشت گردی کے واقعہ میں بھی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں نے متاثرین کو مفت ٹیکسی سروس فراہم کی تھی۔

شیئر: