Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: غریبوں کا مسئلہ غربت کا وائرس

انڈیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 21 دن کا لاک ڈاأن جاری ہے (فوٹو: روئٹرز)
اب غریبوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی خوشی سے غریب بنتے ہیں جیسے یہ بھی کوئی فیشن سٹیٹمنٹ ہو۔ ورنہ انہیں کسی امیر گھر میں پیدا ہونے سے کون روکتا ہے؟ اور اپنی غلط چوئسز کے لیے انہیں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جنہوں نے پیدا ہونے سے پہلے ہی سمجھداری سے کام لینا شروع کردیا تھا۔
اور پھر جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ غریب ہونا کوئی اتنے فخر یا مزے کی بات بھی نہیں، تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ پھر یہ کہنے کا موقع کہاں باقی رہ جاتا ہے کہ سوری، میں غلط گھر میں پیدا ہو گیا، کبھی کوئی بیماری پھیلی تو کیا کریں گے، یہاں تو ’سوشل ڈسٹینسنگ‘ کے لیے بھی جگہ نہیں ہے، اور نہ بار بار ہاتھ دھونے کے لیے بہتا پانی۔
زندگی میں ہرغریب کا واسطہ کسی امیر سے ضرور پڑتا ہے جو کبھی نہ کبھی اسے یہ سمجھا ہی دیتا ہے کہ: یار دیکھو، ناشکرے نہ بنو، تم ایک کمرے میں چھ سات لوگ رہتے ہو، کتنی رونق رہتی ہوگی، کبھی یہ نہیں سوچنا پڑتا ہوگا کہ دل کیسے لگے گا؟

 

اور ایک ہمیں دیکھو، اتنے بڑے مکان میں اکیلے دیواروں سے سر مارتے پھرتے ہیں، اور وائرل بیماریاں کون سا روز پھیلتی ہیں؟
بہرحال، نہ زیادہ تر غریبوں کے حالات بدلتے ہیں اور نہ بات بات پر شکایت کرنے کی فطرت۔ جب سے انڈیا میں کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے اس کی مثالیں صبح سے شام تک دیکھنے کو ملتی ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی بھی ایک غریب گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ اب بھلے ہی یہ لگنے لگا ہو کہ وہ ہمیشہ سے وزیر اعظم تھے اور ہمیشہ رہیں گے، لیکن بچپن میں یقیناً نہیں تھے۔
اس وقت وہ ٹرینوں میں چائے بیچتے تھے اور انہوں نے غربت قریب سے دیکھی ہے، اس لیے وہ غریبوں کے مسائل کو راہل گاندھی اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے دوسرے کم غریب رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ سمجھ پاتے ہیں۔ اور شاید یہ ہی ان کی بے پناہ مقبولیت کا راز بھی ہے۔
جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ ملک میں کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوگیا ہے، انہوں نے ملک میں 21 دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔

بظاہر مقصد تو یہ ہے کہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے لیکن جو لوگ اندر کی بات جانتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ایک مقصد غریبوں کو تھوڑا فری ٹائم یا ’می ٹائم‘ فراہم کرنا بھی ہے۔
بس وہ پیسہ کمانے کی دھن میں کچھ اتنا کھو جاتےہیں کہ باقی سماجی اور مذہبی تقاضوں کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ لاک ڈاؤن سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں محدود ہیں، اور ایسے ایسے رشتے داروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا حال معلوم کر رہے ہیں جن کے زندہ ہونے کی بھی شاید انہیں خبر نہیں ہوگی۔
لیکن سب کہاں۔ نریندر مودی کوئی بھی بڑا اعلان بہت سوچ سمجھ کر اور پلاننگ کے ساتھ کرتے ہیں۔
اور ان کا ایک ٹریڈ مارک ہے۔ رات کو آٹھ بجے ٹی وی پر آتے ہیں اور جن فیصلوں کا اعلان کرتے ہیں، ان پر اطلاق سے پہلے امیر ہوں یا غریب، سب کو چار گھنٹے کی مہلت ضرور دیتے ہیں۔

نریندر مودی کوئی بھی بڑا اعلان بہت سوچ سمجھ کر اور پلاننگ کے ساتھ کرتے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

جب ملک میں نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، تب بھی ایسا ہی ہوا تھا، اس بار پورا ملک بند کیا جارہا تھا، ریل گاڑی، ہوائی جہاز، سائیکل رکشہ، بیل گاڑی سب۔۔۔ تو چار گھنٹے کا نوٹس تو بنتا ہی تھا۔
لیکن ادھر لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا، ادھر لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کے لیے نکل پڑے۔ چونکہ لاک ڈاؤن انگریزی زبان کا لفظ ہے تو لگا کہ شاید سمجھنے میں بھول ہوگئی ہے۔
بی جے پی کے ایک سینئر رہنما بلبیر پنج زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کی طرح بہت شاطر دماغ کے مالک ہیں۔ فوراً سمجھ گئے کہ یہ لوگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ چھٹی منانے جارہے ہیں، اور جب گھر پر ہوں گے تو پرانے رکے ہوئے کام کاج بھی نمٹا لیں گے کیونکہ ایسا تو ہے نہیں کہ ان کے گاؤں دیہات میں روزگار کے مواقع ان کا انتظار کر ر ہے ہوں۔
یہ غریب اور ان کی سازشیں! یہ لوگ چھٹی منانے کے لیے سینکڑوں میل پیدل چلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
 

ادھر لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا، ادھر لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کے لیے نکل پڑے  (فوٹو: سوشل میڈیا)

اور چالاک اتنے کہ راستے میں روک کر پوچھو کہ کیوں جارہے ہو اور کہاں، تو حاضر جوابی اور بہانے بازی میں ان سے کون جیت سکتا ہے۔ صاحب ، ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، ملک بند ہے، کاروبار بند، تعمیر کا کام بند، چھوٹی بڑی تمام فیکٹریاں بند، ہم روز کماتے اور کھاتے ہیں، آمدنی ہی نہیں رہی تو یہاں کیسے رہیں گے، کھائیں گے کیا؟ کمرے کا کرایہ کہاں سے دیں گے، گھر پر چولہا جلتا رہے اس کے لیے پیسے کہاں سے بھیجیں گے؟
اف، یہ ایموشنل کارڈ۔ جیسے امیروں کے گھر میں تو چولہا جلتا ہی نہیں۔ چلیے مانا کہ روز نہیں جلتا کیونکہ آجکل ہوم ڈیلیوری کافی عام ہوگئی ہے لیکن ہم ہی کون سا روز باہر کا کھانا کھاتے ہیں؟ اور پیسے بھیجنے کی کیا ضرورت ہے؟ آن لائن آرڈر کردو، ڈائریکٹ کھانا ہی جو پہنچتا رہے گا؟
پھر یہ شکایت کہ سواری کا کوئی انتظام نہیں ہے لیکن اس بات کا ذرا احساس یا احسان نہیں کہ پیدل چلنا صحت کے لیے کتنا اچھا ہے۔
ہم نے وزیراعظم پر ایک بہت دلچسپ کارٹون دیکھا تھا، غریب ان سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لیے سواری کا انتظام کردیجیے، وزیراعظم جواب دیتے ہیں کہ آپ کسی طرح ایران پہنچ جائیے، میں وہاں سے آپ کو ایئر لفٹ کروالوں گا۔
اب آپ کو بریلی کی ہی مثال دیں۔ کچھ غریب دلی سے کسی طرح بریلی پہنچ گئے تو وہاں انہیں سڑک پر بیٹھا کر ان پر جراثیم کش دواؤں کا چھڑکاؤ کیا گیا۔

اب وفاقی حکومت نے تمام اضلاع اور ریاستوں کی سرحدیں سیل کروا دی ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان غریبوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا ہے۔
کیا بیرون ملک سے جن ہزاروں لوگوں کو خصوصی پروازں کے ذریعے واپس لایا گیا ہے، ان کے ساتھ بھی ایسا کیا جاسکتا ہے؟
بھائی، جو بھی کام غریبوں کے لیے کیے جاتے ہیں، ضروری نہیں امیروں کے لیے بھی کیے جائیں۔ امیر خود دوائیں خرید سکتے ہیں، کچھ وسائل پر غریبوں کا حق زیادہ ہوتا ہے۔ بس ضلع انتظامیہ سے انتی سی غلطی ہوئی ہے کہ جو دوائی چھڑکی گئی وہ انسانوں پر استعمال نہیں کی جاتی۔
لیکن حکومتیں بھی اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتی ہیں۔ آئندہ کبھی کوئی بیماری پھیلی تو خیال رکھیں گے۔

بریلی میں لوگوں کو سڑک پر بیٹھا کر ان پر جراثیم کش دواؤں کا چھڑکاؤ کیا گیا تھا (فوٹو: روئٹرز)

بہرحال، اب وفاقی حکومت نے تمام اضلاع اور ریاستوں کی سرحدیں سیل کروا دی ہیں۔ جو جہاں ہے، جس حال میں ہے، وہیں رہے گا اور ان کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام مقامی انتظامیہ کرے گی۔
اگر لوگوں کو پہلے ہی یہ بتا دیا گیا ہوتا کہ آپ جہاں ہیں، وہیں رہیں، جہاں تک ممکن ہوگا حکومت آپ کی ضروریات زندگی پوری کرنے کی کوشش کرے گی، تو شاید یہ لوگ جان ہتھیلی پر لے کر یوں ہجرت نہ کرتے۔
بلبیر پنچ کا بیان پڑھ کر پہلے تو کافی اچھا لگا۔ ایسے لوگوں کی ہمشیہ قدر کرنی چاہیے جو دو ٹوک بات کرنا جانتے ہوں۔ پھر ایک خوبصورت لیکن دردناک لائن یاد آئی جو سپین سے سکائی نیوز کے ایک نامہ نگار نے اپنے مراسلے میں استعمال کی تھی۔
سپین میں کورونا وائرس سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ نامہ نگار نے لکھا کہ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ’یہاں لوگ (اپنے عزیزوں سے دور) اکیلے مر رہے ہیں،( کیونکہ انفیکشن کے خطرے کی وجہ سے کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔) پیپل آر ڈائنگ الون۔
ہوسکتا ہے کہ غریب بھی اسی ڈر سے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہوں۔ یوں تو مرنا ہی کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ہے، لیکن مجبوری ہی ہو، تو پھر امیر ہو یا غریب، اکیلے کون مرنا چاہتا ہے؟

شیئر: