Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہریت بل،مظاہرین کے پوسٹرز ہٹانے کا حکم

دہلی فسادات میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا کی عدالت نے حکومت کو وہ تمام اشتہاری پوسٹرز ہٹانے کا حکم دیا ہے جن پر شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی تصاویر اور ذاتی معلومات چھپی ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش کی حکومت نے گذشتہ ہفتے چھ اشتہاری پوسٹرز لگوائے تھے جن پر 57 مظاہرین کی تصاویر کے ساتھ نام اور گھر کا پتہ درج ہے۔
یہ پوسٹرز ریاست کے دارالحکومت لکھنو کے نمایاں مقامات پر لگائے گئے تھے۔
اشتہاری پوسٹرز پر ان تمام 57 افراد کی معلومات چھاپی گئی ہیں جنہوں نے شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی تھی۔
اتر پردیش کی آلہ آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو تمام پوسٹرز 16 مارچ تک ہٹانے کی مہلت دی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس قسم کے پوسٹرز شہریوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہیں۔
یاد رہے کہ فروری کے آخر میں انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں اور اس قانون کے حامیوں کے درمیان تصادم نے فسادات کا روپ اختیار کر لیا تھا جس میں اربوں کی املاک کو نقصان پہنچا تھا جبکہ 70 سے زائد افراد بھی ہلاک ہو گئے تھے۔
حکومتی جماعت بی جے پی کے مطابق شہریت قانون جنوبی ایشیا میں بسنے والے تمام غیر مسلم مہاجرین کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کے مشیر مرتی انجے کمار کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم پر عمل کیا جائے گا لیکن ساتھ ہی فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

 انڈیا کی مسیحی برادری نے بھی شہریت قانون کے خلاف مظاہرے کیے (فوٹو: اے ایف پی)

اتر پردیش کی حکومت نے 57 افراد پر پرتشدد مظاہروں میں شرکت کا الزام لگایا ہے جن کی معلومت پوسٹرز پر درج کروا کر یہ پوسٹر لکھنو کے نمایاں مقامات پر لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک شخص پر بھی جرم ثابت نہیں ہوسکا۔
صدف جعفر نامی خاتون کے اشتہاری پوسٹرز بھی لکھنو میں لگائے گئے ہیں جو شہریت قانون کے خلاف مظاہرے کرنے والوں میں شامل تھیں۔ 
صدف جعفر نے بتایا کہ انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کیے گئے اقدامات نے ان کی زندگی کو زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکوت کے اقدامات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گی۔
اشتہاری پوسٹرز پر دکھائے گئے افراد کے ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثریت کا تعلق انڈیا کی مسلمان اقلیتی برادری سے ہے۔
سابق پولیس افسر ایس آر داراپوری کے بھی اشتہاری پوسٹرز لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے اس اقدام کو سراسر غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’نہ تو ہم مفرور ہیں اور نہ ہی مجرم ہیں۔‘ 

شیئر: