Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فطرت سے ’پنگا‘ جاری رہے گا

فطرت سے چھیڑ چھاڑ  کے نتیجے میں انسان فطرت کا ایک جوابی تھپڑ بھی نہیں سہہ سکتا (فوٹو: ٹوئٹر)
فطرت انسان کی دوست ہے اگر اس کے ساتھ سیدھے سبھاؤ شرافت کے ساتھ چلا جائے۔ فطرت کے ساتھ سیان پتی، ڈیڑھ ہوشیاری، مکاری، منافقت، دھوکہ دہی اور ظلم  کبھی پھل نہیں دیتا۔ بقول عبید اللہ علیم
کوئی قاتل نہیں گذرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے
اس کرہِ ارض پر جو بھی نباتات و جمادات و حیاتیات ہے سب کی سب آدمی نامی جاتی سے بہت پہلے کی ہے۔ آدمی کو تو ارتقائی پیمانے کے اعتبار سے انسان بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں لیکن اس شریر بچے نے اپنی چند لاکھ سال کی مختصر ارتقائی عمر میں ہی وہ ادھم مچا دیا ہے کہ  زمین کی ہر شے  تنگ ہے۔ 
مگر دیگر جاندار اور فطرت چونکہ انسان کے مقابلے میں زیادہ وسیع القلب اور خاندانی ہے اس لیے وہ کبھی کبھار انسان کو ڈانٹتی ہے، کان کھینچتی ہے اور انسان تب بھی اڑا رہے تو  بسا اوقات تشریف پر ایسا ٹھڈا پڑتا ہے کہ انسان بلبلا اٹھتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد  وہی حرکتیں  زیادہ شد و مد کے ساتھ کرتا ہے۔
دنیا کی کوئی دوسری مخلوق اپنا گھر اپنے ہاتھوں نہیں اجاڑتی یہ اعزاز صرف نسلِ انسانی کو حاصل ہے کوئی زی روح  اپنے ہم نسل کو جان بوجھ کر ایذا نہیں پہنچاتا مگر انسان اس وصف پر بھی قادر ہے۔
 کہنے کو تو انسان اپنے تئیں سب سے عالی دماغ ہے پر اسے یہ سامنے کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ فطرت سے چھیڑ چھاڑ  کے نتیجے میں وہ فطرت کا ایک جوابی تھپڑ بھی نہیں سہہ سکتا مگر کیا کریں پھنے خانی ہے کہ نہیں جاتی ۔
زلزلہ، سیلاب، بیماری ان میں سے کوئی بھی انسان کو نقصان نہیں پہنچاتا اگر انسان خود کو نقصان پہنچوانے کا بارِ دگر و مسلسل اہتمام نہ کرے۔

آسٹریلیا کے جنگلوں میں آگ لگنے سے نہ صرف درختوں بلکہ بڑے پیمانے پر جانوروں کو بھی نقصان پہنچا (فوٹو: اے ایف پی)

کیا وجہ ہے کہ جون 1992 میں جب کیلی فورنیا میں سات اعشاریہ تین کا زلزلہ آیا تو تین اموات ہوئیں اور چار سو کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے گیارہ مارچ دو ہزار گیارہ کو جاپان میں اعشاریہ نو شدت کا زلزلہ اور اس کے نتیجے میں سونامی آیا تو مالی نقصان اربوں ڈالر کا ہوا مگر اس سانحے میں صرف انیس ہزار تین سو انسانی جانیں تلف ہوئیں۔
اس کے برعکس  جب شمالی پاکستان میں آٹھ اکتوبر 2005 کو محض سات اعشاریہ چھ شدت کا زلزلہ آیا تو لگ بھگ نوے ہزار جانیں گئیں اور ہزاروں عمارتیں ڈھے گئیں۔
کیلی فورنیا اور جاپان میں کم جانی نقصان کی صرف ایک وجہ تھی وہاں کے زمہ داروں  کو بیسیوں برس پہلے سے معلوم تھا کہ ہم زلزلے کی گذرگاہ میں ہیں لہذا بلڈنگ کوڈ ایسا بنایا جائے کہ جھٹکا بھلے جتنا بھی شدید آئے مگر انفراسٹرکچر تباہ ہونے کے باوجود انسانی اتلاف کم سے کم رہے جبکہ پاکستان میں نسبتاً  کم درجے کے زلزلے  میں بھی اس قدر جانی نقصان یوں ہوا کہ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ شمالی پاکستان اور کشمیر کے متعدد علاقے زلزلے کی پٹی پر واقع ہیں بلڈنگ کوڈ وہی اپنایا گیا جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں لاگو تھا۔

جولائی اگست ستمبر 2010 کے سیلاب سے ایک چوتھائی پاکستان زیرِآب آ گیا (فوٹو: اے پی)

چلیے کوئی بات نہیں اتنی بھاری چوٹ کھانے کے بعد بھی عقل آجائے تو کیا برا ہے مگر  آج  زلزلے کے پندرہ برس بعد بھی بالاکوٹ ہو کہ مظفر آباد، گڑھی حبیب اللہ ہو کہ بٹا گرام، وہی طرزِ تعمیر، وہی کنکریٹ کی عمارت سازی اور وہی اللہ مالک ہے کا ورد جو آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ سے پہلے تھا۔
گویا اس جھٹکے سے یہ سیکھا کہ کچھ نہ سیکھا اب کے خدانخواستہ  اتنی ہی شدت کا زلزلہ آیا تو پہلے کی طرح پانچوں انگلیاں دوسرے کی جانب یا آسمان کی طرف اٹھیں گی اور حکومت سمیت ہر شخص ہمیشہ کی طرح خود کو بری الزمہ قرار دے دے گا۔ اسے کہتے ہیں نیشنل کیریکٹر یعنی کردار کی پختگی۔
دوسری مثال جولائی اگست ستمبر 2010 کا سیلاب ہے جس میں ایک چوتھائی پاکستان زیرِآب آ گیا۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد جانوں کا اتلاف ہوا اور پاکستانی معیشت کو لگ بھگ دس ارب روپے  کا ٹیکہ لگا۔ سیلاب تو پاکستان میں تقریباً ہر سال آتے ہیں مگر دو ہزار دس کا سیلاب اتنا تباہ کن کیوں تھا؟
اس سے پہلے 1951، 1973 اور 76 میں بھی بد ترین سیلاب آئے تھے۔ سبق لینے کے بجائے لوگوں نے یہ کیا کہ دریاؤں سے زمین چھیننی شروع کر دی۔ دریاؤں کا پاٹ سکڑتا چلا گیا۔ لالچ کا بس نہیں چلتا تھا کہ دریا کو نالے میں تبدیل کر دے۔

ماہرین کے مطابق جنگلات کی کٹائی سے بھی ایکو سسٹم کو نقصان پہنچا ہے (فوٹو: پکسا بے)

ہزاروں برس سے پانی کے کنارے رہنے والے جانتے ہیں  کہ دریا ہر چند برس بعد راستہ بدلنے کے باوجود  پچھلی گذرگاہ  کبھی نہیں بھولتا۔ مگر لوگوں نے دریا کی یادداشت کو کمزور فرض کر کے  چھوڑی ہوئی گذرگاہوں میں کھیت بنا لیے، کالونیاں تعمیر کر لیں، کارخانے لگا لیے اور بہتے پانی میں ہر طرح کا زرعی، صنعتی و انسانی فضلہ پھینکنا شروع کر دیا۔
جب انسان کی بد تمیزی ناقابلِ برداشت ہو گئی تو ایک دن دریا بادشاہ اور اس کے جونئیر پارٹنرز کی غیرت نے جوش مارا اور راستے میں آنے والی ہر شے بہا لے گئے۔ اس دوران لوگوں اور ان کی حکومتوں نے عہد کیا کہ آئندہ دریاؤں کا احترام کیا جائے گا۔ مگر صرف چند ماہ میں انسان اور بدعنوان حکومتوں نے وہی حرکتیں دوبارہ شروع کر دیں اور دریاؤں کے گلے میں پھر سے رسہ ڈال کر انہیں کھینچنا شروع کر دیا۔
اب میں انتظار میں ہوں کہ ان بدتمیز و بد عہد لوگوں کو اگلی سیلابی سزا کب اور کتنی ملے گی؟ پھر بھی اپنی کوتاہی کا اعتراف نہیں ہوگا۔ بس یہی کہا جائے گا  کہ جو اللہ کو منظور۔
کچھ یہی معاملہ وائرس کا بھی ہے۔ وائرس اپنی ذات میں بہت شریف النفس ہوتے ہیں وہ اپنی آماجگاہ آسانی سے چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ 
پندرویں صدی عیسوی کے یورپ کی ایک تہائی آبادی  کو برباد کرنے والے کالے طاعون سے لے کر انیس سو اٹھارہ سے بیس تک پانچ کروڑ انسانوں کو اپنے ساتھ لے جانے والے سپینش انفلوئنزا تک اور پھر ایڈز  کے جرثومے سے لے کر اکیسویں صدی کے برڈ فلو، سوائن فلو، سارس فلو اور ایبولا  اور اب کورونا تک تمام وائرس جانوروں سے جمپ کر کے انسان میں منتقل ہوئے۔ مگر انسان نے ایک بار بھی سبق نہیں لیا کہ جانوروں کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے جانور نہیں بن جانا چاہیے اور فطرت کے ساتھ دھونس دھاندلی کے بجائے پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت ایک شکر گذار جونئیر پارٹنر کے طور پر رہنے کا ڈھب سیکھ لینا چاہیے۔
پر آپ دیکھیں گے کہ جیسے ہی کورونا پسپا ہوتا ہے انسان پھر سے اپنی اوقات بھول کر فطرت کی عزت تار تار کرنے پر لگ جائے گا۔ کورونا نہ پہلا ہے نہ آخری ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے  اس بار انسان بندے دا پتر بن جائے۔ مگر میرا یہ سمجھنا بھی بطور آدمی میری خوش فہمی ہی سمجھیے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں