Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاندھلہ کے گنجے اور مولانا ظفر علی خان

فارسی لفظ ’گنج‘ سے ’گنجہ اور گنجینہ‘ ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
جلیل مانک پوری اردو شاعری کا معتبرحوالہ ہیں۔ یہ حوالہ جس تقریب سے یاد آیا وہ ان کا ایک شعر ہے: 
آپ چُھو دیکھیں کسی غنچے کو اپنے ہاتھ سے
غنچہ گل ہو جائے گا اور گل چمن ہو جائے گا
یقیناً ممدوح کے ہاتھ جادو اثر ہوں گے کہ غنچہ، گُل اور گُل سے گُلزار ہوا چاہتا ہے۔ تاہم اس شعر میں ہمیں لفظ ’غنچہ‘ سے غرض ہے، جو کبھی ’گنجہ‘ تھا اور صوتی تبادل کے بعد ’غنچہ‘ ہوگیا۔ فارسی لفظ ’گنج‘ سے ’گنجہ اور گنجینہ‘ ہیں اور یہ تینوں الفاظ اپنے اندر’خزانۂ سیم و زر اور مال و ثروت کا مفہوم رکھتے ہیں۔ ایسے میں’غنچہ‘ کو ’گنجہ‘ اس لیے کہا گیا کہ اس میں خوشبو اور خوبصورتی کا خزانہ چھپا ہوتا ہے جو پھول بننے پر ظاہر ہوجاتا ہے۔
فارسی کا ’گنج‘ آرامی زبان میں ’گنیزا‘ اور عربی زبان میں ’کَنز‘ ہے۔ اس صوتی تبدیلی کے باوجود اس کے معنی ’خزانہ‘ ہی ہیں۔ اس معنی میں ’کنز‘ اردو میں بھی مستعمل ہے۔

 

اسے بہت سی کتابوں کے ناموں میں بطور سابقہ دیکھا جاسکتا مثلاً ’کنزالایمان، کنزالعمال اور کنزالتواریخ وغیرہ۔ بیباک بھوجپوری (انڈیا) کا ایک مشکل شعر ہے:
مذاقِ فقر ہے رحمت اثر زمانے میں
عذابِ کنز تونگر تلاش کرتا ہے
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ عربی زبان میں خزانہ رکھنے کی جگہ ’مَخزَن‘ کہلاتی ہے، اور یہی ’مخزن‘ انگریزی لفظ ’میگزین‘ (magazine) کی اصل ہے۔ میگزین میں صاحب ذوق کے لیے دلچسپی کا خزانہ ہوتا تھا ممکن ہے اس لیے اسے میگزین کہا گیا ہو، کم ازکم فیشن میگزین اور سپورٹس میگزین وغیرہ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔
خیر واپس ’گنج‘ پرآتے ہیں کہ  فارسی کی نسبت سے اردو میں بھی اس لفظ سے بہت سے معنی، دسیوں ترکیبیں، محاورے اورمثالیں وابستہ ہیں۔ معنی میں ’خزانہ، دفینہ، کَنز، مخزن مالِ کثیر، ذخیرہ، گودام، اناج منڈی، ڈھیراورآبادی شامل ہے‘۔
 ’آبادی‘ کے معنی کو لکھنؤ کے ’حضرت گنج‘ اور دہلی کے ’پہاڑگنج‘ وغیرہ کے ناموں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اب ’گنج‘ کی رعایت سے غالب کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں :
کیوں اسے قفلِ درِ گنجِ محبت لکھیے
کیوں اسے نقطۂ پرکار تمنا کہیے
’گنج‘ تراکیب میں گنجِ الہٰی (قرآن مجید)، گنج خانہ (مخزن)،گنجِ بان (محافظ خزانہ)، گنجِ بے بہا (انمول خزانہ) اور گنجِ شہیداں (شہیدوں کی اجتماعی قبر) وغیرہ کی صورت میں رائج ہے۔ 

گنجِ عروس پہلا خزانہ تھا جسے خسرو نے خود جمع کیا تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

گذشتہ نشست میں ساسانی بادشاہ خسرو پرویز کے ’ہفت گنج‘ کا ذکر تھا، جنہیں بادشاہ کی نسبت سے ’گنجِ خسرو‘ اور’گنجِ پرویز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چوں کہ بات حقیقت سے زیادہ افسانوی ہے لہٰذا خزانوں کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ تعداد پانچ، سات اور آٹھ تک بیان کی جاتی ہے۔ فارسی اہل لغت نے انہیں ’پنچ گنج‘، ’ہفت گنج‘ اور’ہشت گنج‘ لکھا ہے۔ ان کا ترتیب وار مختصرتعارف پیش خدمت ہے:
1۔ گنجِ عروس: یہ پہلا خزانہ تھا جسے خسرو نے خود جمع کیا تھا۔
2۔ گنج باد آور: اسے ’بادآورد‘ اور’باد آوردہ‘  بھی کہا جاتا ہے۔ لفظی مطلب ہے ہوا کا لایا ہوا خزانہ۔ ہِرقل روم کا یہ خزانہ جہازوں میں لدا تھا جو بادِ مخالف کے زورسے ایرانی فوجی کیمپوں تک پہنچ گیا۔ خسرو نے اس کا نام ’گنج بادآور‘ رکھا۔ اب ایسا مال جو مفت ہاتھ آجائے اسے ’گنج باد آور‘ کہتے ہیں۔ ’گنجِ شائگاں‘ بھی یہی ہے۔
3۔ گنج دیبا خسروی ۔ یہ تیسرا خزانہ تھا۔ 
4۔ گنج افراسیاب: یہ شاہ افراسیاب کا خزانہ تھا جو خسرو کے ہاتھ لگا۔
5۔ گنجِ سوختہ: اس کے معنی ’جلا ہوا خزانہ‘ ہیں۔ مشہور ہے کہ ایران کے ساسانی حکمرانوں کا یہ خزانہ قیمتی زروجواہر، نادر خوشبویات اورانمول روغنیات سے بھرا تھا۔ اس خزانے پر آسمانی بجلی گرنے سے آگ بھڑک اٹھی۔ آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ چالیس میل کے دائرے میں اس نے کسی کو جیتا نہیں چھوڑا۔ یہ آگ چار ماہ تک برابر بھڑکتی رہی اوراس دوران اس سے خوشبو پھوٹتی رہی۔ جب یہ آگ ٹھنڈی ہوئی تو اس کے نیچے زمین یاقوت کی طرح سرخ ہو چکی تھی۔ 
6۔ گنج خضرا: یہ چھٹا خزانہ تھا۔
7۔ گنج شاد آورد: اسے گنج شادورد اور گنج شارورد بھی کہتے ہیں۔ 
8۔ گنجِ بار: اس خزانے میں سونے کی گائے بھی شامل تھی۔ اس لیے اسے گنج گاؤ بھی کہتے ہیں۔  خسرو کو اس خزانے کا پتا ایک کسان نے بتایا تھا۔ اسے بادشاہ ذوالقرنین کے دفینوں میں سے بتایا جاتا ہے۔ بعض اہل لغت کے مطابق ’گنج شاد آورد‘ بھی یہی ہے۔

 ہرایک ’گنج‘ کو فارسی شاعروں نے اپنے کلام میں برتا ہے۔ فوٹو: وکی پیڈیا

’گنجِ گاؤ‘ کی نسبت بادشاہ جمشید کی طرف بھی کی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ یہ خزانہ بادشاہ بہرام گور کے زمانے میں ظاہر ہواتھا۔ 
ان میں سے ہرایک ’گنج‘ کو فارسی شاعروں نے اپنے کلام میں برتا ہے اور فارسی کی نسبت سے اردو شاعروں کے ہاں بھی ’گنج خسرو‘ کا ذکر ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے شاعروں نے اس خزانے کو بے قدری کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ میر انیس کا شعر ہے:
بخت پائے ہیں سکندر کے غلامِ نو نے
گنج وہ لایا ہوں دیکھا جو نہ تھا خسرو نے
دوسری طرف میرتقی میر کا کہنا ہے :
مال کیا ہے ہفت گنج خسروی
اک ہی کو نواب بخشے ہے شتاب
سچی بات ہے بادشاہوں کے ’گنج‘ سے جی بیزار ہوگیا ہے۔ ایسے میں اردو کے ’گنج‘ کی بات ہوجائے جس سے ’گنج پن‘ اور ’گنجا‘ جیسے الفاظ بنے ہیں۔ اس مناسبت مولانا ظفرعلی خان کا ایک واقعہ لائق بیان ہے، جس میں انہوں نے ’گنج‘ کو دوہرے معنی میں استعمال کرکے صورتحال کو پُرمزاح بنادیا تھا۔
 قصہ یوں ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں سالانہ مشاعرے بڑے زور دار ہوتے تھے۔ دوسرے شہروں سے بھی شاعر اور سامعین  اس میں شرکت کرتے تھے۔
ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان مشاعرے کے سیکریٹری تھے، انہیں کسی دوست نے بتایا کہ ’کاندھلہ‘ سے تین شاعر اکثر آتے ہیں۔ وہ اپنا کلام تو سناتے ہیں، مگر دوسرے شاعروں کو سنتے وقت ان کے بعض الفاظ پرگرفت کرکے چوٹیں بہت کرتے ہیں۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ تینون گنجے ہیں۔ ذرا احتیاط رکھیے گا۔ مشاعرے اکثر طرحی ہوتے تھے۔ اتفاق سے اس سال مصرع طرح تھا

مولانا ظفر علی خان کا شعر سن کر سارا مجمع زعفران زار بن گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

’قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا‘
یہ مصرع ’خواجہ حیدر علی آتش‘ کی مشہور غزل کا ہے، جس کا مطلع ہے:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
خیر مشاعرے کا آغاز ہوا تو مولانا نے پہلے اپنی غزل پیش کی، جس کا دوسرا یا تیسرا شعر تھا:
آتا ہے کاندھلے سے جو لاتا ہے سر پہ ’گنج‘
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا
شعر سن کر سارا مجمع زعفران زار بن گیا اور تینوں گنجے شاعر اتنے دبک گئے کہ نہ کوئی چوٹ سوجھی اور نہ کسی پر پھبتی کسی۔اس طرح ’گنج‘ نے اردو کا لباس پہن کر نیا رنگ پیدا کردیا۔
ویسے قارون کے خزانے سے متعلق مشہور ہے کہ وہ مسلسل زمین میں دھنستا جارہا ہے اس لیے اسے ’گنج رواں‘ بھی کہتے ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں، کالم و بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: