Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر: مزدوروں کی حالت ’ایک انسانی المیہ‘

گیس کی دولت سے مالا مال قطر میں مزودروں کے صنعتی علاقے کی مخدوش صورتحال کا راز کسی سے چھپا نہیں ہے: فوٹو اے ایف پی
سری لنکا  کے علاقے  باٹیکالاوا سے تعلق رکھنے والے انٹونی جتنا عرصہ بھی قطر میں رہے وہ ایک دوہری زندگی گزارتے رہے۔
دن کے وقت وہ شمالی دوحہ میں قطر فاؤنڈیشن اور قطر نیشنل کنوینشن سنٹر کی چمکتی عمارتوں کی صفائی ستھرائی کا کام کرتے جب کہ رات کے وقت صنعتی علاقے کی ایک متروکہ عمارت کے تنگ و تاریک کمرے میں کسمپرسی کی زندگی گزارتے جو ویئیر ہاوسز، گاڑیوں کی ورکشاپس وغیرہ میں کام کرنے والے مزدوروں کے رہنے کی جگہ تھی۔
عرب نیوز کے مطابق گزرے دنوں کے بارے میں انٹونی کا ماننا ہے کہ یہ قسمت ہی تھی جو چند ماہ قبل انہیں سری لنکا لے گئی۔ ان کے بہت سے سابق ساتھی جو رات کو ان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سویا کرتے تھے، اب خود کو قید میں محسوس کرتے ہیں کیونکہ کورونا وائرس پھوٹنے کے بعد قطری سکیورٹی نے صنعتی علاقے کو سیل کر دیا ہے اور وہ سب اندر ہیں۔
دوہا کے رہائشی جانتے ہیں کہ قریبی غریب علاقے میں کیا ہوتا رہا ہے۔ انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والا ایک انسانی المیہ۔

قطر میں کام کرنے والے مزدوروں کو کورونا وائرس کی وجہ سے شدید پریشانی اور تشویش کا سامنا ہے: فوٹو اے ایف پی

قطر گیارہ مارچ سے نقصان کم سے کم کرنے کی غرض سے تگ و دو میں ہے کیونکہ علاقے کو اس وقت سے سختی سے لاک ڈاؤن کر یا گیا تھا جب وزارت صحت عامہ کی جانب سے کہا گیا کہ ایک ہی صنعتی کمپلیکس میں رہنے والے دو سو اڑتیس افراد میں کورونا وائرس سامنے آیا ہے۔
اس وقت بھی دوسرے ملکوں سے کام کے لیے آنے والوں کی جانچ پڑتال زوروشور سے جاری ہے۔
قطر کے وزیراعظم شیخ خالد بن خلیفہ بن عبدالعزیز کو سولہ غیر سرکاری تنظیموں اور ٹریڈ یونینز کی جانب سے اکتیس مارچ کو ایک کھلے خط میں مشترکہ طور پر کارکنان کے لیے مناسب حفاظتی اقدمات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹٰی انٹرنیشنل اور مائیگرینٹس رائٹس کی جانب سے بھی دوحہ سے کہا گیا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بغیر کسی امتیاز کے مزید اقدامات کیے جائیں اور صحت عامہ کا خیال رکھا جائے۔
مطالبے کے مطابق’دیگر سفارشات کے ساتھ ساتھ قطری حکام کو تمام رجسٹرڈ ورکروں کے ساتھ ساتھ غیررجسٹرڈ ورکروں، جو قرنطینہ میں ہیں یا نہیں، انہیں ٹیسٹ اور دیگر مناسب طبی امداد کی سہولت پہنچائی جائے‘۔
فروری تک دنیا نے قطری حکام کی ملائم پیرائے میں بیان کردہ اصطلاح ’ایک رہائشی کمپلکس ‘ کے بارے میں بہت تھوڑا سنا تھا جو دراصل غریب غربا کی وہ جھونپڑیوں ہیں جہاں گنجائش سے زیادہ مزدوروں کو رکھا گیا ہے جن کی آمدن بھی بہت کم ہے۔

2012 اور2017 درمیان ایک ہزار پچیس نیپالی قطر میں دل، نظام تنفس کے فیل ہونے، بیماری یا دوسری وجوہات سے ہلاک ہوئے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

صنعتی علاقے کا اتنا برا حال گیس کی دولت سے مالامال ملک قطر میں ایک کھلا راز ہے لیکن انتہائی دور افتادہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں اور قطری اخراجات پر ملک کے دورے کرنے والے دوسرے ممالک کے اداروں کے حکام کی نظروں سے اوجھل ہے۔
اس وقت ہزاروں مزدوروں کے کورونا وائرس کا شکار ہونے کا قوی امکان ہے، پورا ضلع سخت لاک ڈاؤن میں ہے۔ ایسے میں صحت عامہ کے حوالے سے سامنے آنے والا بحران قطر کی ساکھ پر ایک بدنما داغ ہے اور پوری عرب دنیا کے اجتماعی ضمیر پر ایک دھبہ ہے۔
اس حوالے سے ایک سفارتی سورس کا کہنا ہے ’گزشتہ جمعے کی حد تک تو صورت حال قابو میں ہے لیکن مکمل طور پر نہیں۔ مزدوروں کی نقل و حرکت پر سخت پابندی ہے۔‘
بیس مارچ کو برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ میں قریبی علاقے میں رہنے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا تھا ’کوئی بھی اندر یا باہر نہیں جا سکتا، قرنطینہ کیمپس کے اندر خوف اور بے یقینی کی فضا ہے۔‘
انڈسٹریل ایریا کے اندر موجود ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ کچھ کام کرنے والوں کو تا اطلاعِ ثانی بغیر اجرت کی رخصت پر ڈال دیا گیا ہے۔ ان کو صرف کھانا اور رہائش دی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور نے گارڈین کو بتایا کہ ’صورت حال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے، نمبر ایک سے بتیس تک تمام کیمپ لاک ڈاؤن میں ہیں۔ میرے جو دوست وہاں رہتے ہیں وہ انتہائی خوفزدہ ہیں۔‘
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شخص کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا جس کا قرنطینہ میں دوسرا ہفتہ چل رہا ہے۔
’ہمیں آٹھ دس دن سے لاک ڈاؤن میں ڈالا گیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ یہ کب ختم ہو گا‘
’ہمیں روزمرہ کی اشیا کا بنیادی مسئلہ ہے، حکومت ہم کو صرف کھانا فراہم کرتی ہے وہ بھی چند روز کے بعد اور انتہائی کم مقدار میں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی سکروٹنی کے معیار کے برعکس اقدامات کی وجہ سے تعمیراتی مزدور آنے والے دنوں میں مزید غیرمحفوظ ہوں گے: فوٹو اے ایف پی

ایک اندازے کے مطابق دوسرے ممالک سے آکر کام کرنے والے تقریباً 20 لاکھ افراد قطر میں موجود ہیں جن میں اکثریت جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔
یہ لوگ ملک میں مزدورری کرنے والوں کا پچانوے فیصد ہیں۔
خلیجی ریاست نے دو ہزار بائیس کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے تعمیراتی شعبے میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں قطر میں مزدوروں کے حالات کو بارہا تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں خصوصاً جب سے قطر نے ایک ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم اور فٹ بال سٹیڈیم بنانے اور فٹبال سے متعلق کچھ دوسرے منصوبوں کے لیے بہت زیادہ مزدوروں کو بلانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
سوائے ان چند مہینوں کے جب یہاں موسم قابل برداشت ہوتا ہے، یہ مزدور سخت گرمی میں مختلف سائیٹس پر دن رات شدید محنت کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مزدور اس مقام سے میلوں دور رہتے ہیں جس کو انڈسٹریل ایریا کہتے ہیں۔
بہت عرصے سے یہاں کے ارد گرد کا علاقہ "ڈسٹرکٹ نائن" نامی فلم کے اس سیٹ سے مشابہہ رہا ہے جو انیس سو نو میں بنی، جس میں جنوبی افریقہ کے ایک افسانوی قیدخانے کا کیمپ دکھایا گیا جس میں بیمار اور خوراک کی کمی کا شکار مخلوق کو قابل رحم حالت میں زمین پر رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ قطر کے حکمرانوں کے پاس اس وقت فنڈز کی کوئی کمی نہیں تھی جب وہ بڑے منافع کے لیے سفارتی اقدامات اور کھیلوں کی میزبانی کی بولیاں لگا رہے تھے۔ یا پھر مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی مالی اعانت کر رہے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں قطر میں مزدوروں کے حالات کو بارہا تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں: فوٹو اے ایف پی

لیکن جب بات خود اس پر آئی خصوصاً مزدور کیمپس کے حوالے سے تو ناقابل فہم طور پر ایسا لگا کہ گیس کی دولت اس قدر ناکافی ہے کہ اس سے ان علاقوں کو صرف رہنے کے ہی قابل بنایا جا سکے۔
حالیہ برسوں میں انڈسٹریل ایریا کی سڑکیں دیگر تعمیراتی منصوبوں اور ہائی ویز کے ساتھ جوڑ دی گئی ہیں لیکن اس سے تعمیراتی مزدوروں کی زندگی میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔
گلیوں میں بڑے بڑے گڑھے ہیں۔ موٹر کار میں سفر کرنے والوں کو اس سوچ پر معاف کیا جا سکتا ہے کہ وہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین ملک میں نہیں بلکہ کسی تاریک سرزمین پر ہیں۔
ایسی گلیاں ان خستہ حال خواب گاہوں سے بھی جڑی ہیں جہاں اکثر ایک کمرے میں دس سے زیادہ افراد رہتے ہیں اور مشترکہ باورچی خانہ اور غسل خانہ مضر صحت طور پر استمال کرتے ہیں۔
کسی متعدی مرض سے بچاؤ کے لیے سماجی دوری اور خودساختہ تنہائی جیسی مشق ایسے ماحول میں ممکن ہی نہیں ہے۔
سٹریٹ لائٹس ناکافی ہیں۔ آنے جانے والی گاڑیوں کی وجہ سے اڑنے والا گردوغبار کو برداشت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں خصوصاً جب آنے کا تعلق صرف چند میل دور دوحہ کے امیر طبقے سے ہو جیسے ویسٹ بے، لوسیل یا مصنوعی جزیرہ پرل قطر۔
یہاں تک کہ کورونا وائرس کے اندسٹریل ایریا کے لیے خطرے کے طور پر سامنے آنے سے قبل بھی یہاں کے رہائشیوں کے لیے غیر قدرتی موت کے امکانات زیادہ ہی ہوتے تھے خاص طور اسی خلیجی ریاست کے طویل گرم موسم ہیں۔
ہزاروں مزدور اس وقت گرمی کے مہلک درجے کی زد میں ہیں جو پینتالیس سی سی سے زائد درجہ حرارت پر دس دس گھنٹے کام کرتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں انڈسٹریل ایریا کی سڑکیں دیگر تعمیراتی منصوبوں اور ہائی ویز کے ساتھ جوڑ دی گئی ہیں لیکن اس سے تعمیراتی مزدوروں کی زندگی میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔: فوٹو اے ایف پی

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سخت گرمی کا اثر دل پر پڑتا ہے اور اس کا براہ راست تعلق سخت گرمی میں مزدوروں کی ہلاکت سے بھی ہے۔
انڈین حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق اس (انڈیا) کے ایک ہزار 678 شہری قطر میں دو ہزار بارہ اور دو ہزار اٹھارہ کے درمیان ہلاک ہوئے۔
2012 اور2017 درمیان ایک ہزار پچیس نیپالی قطر میں دل، نظام تنفس کے فیل ہونے، بیماری یا دوسری وجوہات سے ہلاک ہوئے۔
رپورٹس کے مطابق بیشتر کیسز میں پوسٹ مارٹم نہیں کیے گئے جو قلب کے عارضے یا کسی دوسری "قدرتی" وجہ سے جان سے گئے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی سکروٹنی کے معیار کے برعکس اقدامات کی وجہ سے تعمیراتی مزدور آنے والے دنوں میں مزید غیرمحفوظ ہوں گے۔
بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق لیبر کا بحران تقریباً پچیس ملین کارکنوں کو بے روزگار کر سکتا ہے۔
ایک بار قطر کے صنعتی علاقے میں وقت گزارنے والے انٹونی کے لیے سری لنکا لوٹنا وقتی طور پر تکلیف دہ فیصلہ تھا کیونکہ ایک غیرہنرمند کے لیے کام کا موقع کم ہو گیا لیکن دور اندیشی نے ان کو فائدہ بھی دیا اور ان کو اس پر کوئی افسوس نہیں۔
 
 

شیئر: