دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے بعد لاکھوں افراد گھروں سے کام کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ہمیں لگتا تھا کہ قرنطینہ سے ہمارے کانوں پر خاص جوں نہیں رینگے گی۔ جیسا کہ ہمارا کام شروع سے ہی گھر سے کرنے والا تھا اس لیے ہمیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ہمارے لیے قرنطینہ کا یہی مطلب تھا کہ بس جِم جانے سے چھٹی ہو گی۔ آٹھ نو گھنٹے گھر سے کام کرتے تھے اس لیے یوں بھی باہر جانے کا خاص موقع نہیں ملتا تھا۔
طبیعت سدا کی آدم بیزار ہے اس لیے کسی کو ملنے جلنے میں یوں بھی دلچسپی نہیں تھی۔ اچھا ہی تھا کہ اب تکلف میں بھی کسی کو نہیں ملنا تھا۔ بلکہ کہ ہماری تتلی نما سہیلیوں کو بھی اب ہم سے سب گِلے ختم ہونے والے تھے کہ ہم ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے پارٹیوں سے جان چھڑاتے تھے۔ نہ کسی لنچ میں جانے میں انٹرسٹد تھے نہ ہی کسی کی سرپرائز برتھ ڈے پارٹی سے کوئی سروکار تھا۔
بازار بند ہو رہے تھے لیکن ہماری بلا سے۔ ہم شاپنگ سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ بازار کی راہ عام طور پر تب ہی لیتے جب موسم بدل رہا ہوتا تھا اور ہمارا ٹھٹھر ٹھٹھر کر برا حال ہوتا تھا۔ بائی دا وے، ہم اس عمر سے باہر آ چکے ہیں جب ہمیں کپڑے چھوٹے ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن یہاں سردی لمبی ہوتی ہے اس لیے وہی کپڑا بار بار پہنا جاتا ہے۔ جلدی خراب ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہمارے بس میں ہو تو شاید کبھی شاپنگ کے لیے بازار کا رخ نہ کریں۔ بلکہ جب کبھی شاپنگ کرنی پڑ جاتی تھی تو ہمیں عجیب سی بے چینی ہی لگی رہتی تھی۔ اسی لیے خیال تھا کہ جس دن بڑے آدمی بن گئے فوراً پرسنل شاپر بھرتی کریں گے جو ہمارے لیے یہ درد سری سمیٹیں گے۔
لیکن ہمارے شوہر نامدار کے لیے یہ صورتحال خاصی مشکل ثابت ہوئی۔ باوجود اس کے کہ اب ان کا کام گھر سے ہونا تھا اور پہلے سے کہیں زیادہ ہونا تھا ان کے لیے گھر رہنا جوئے شیر لانا تھا۔
لاک ڈاؤن کے بعد گھر سے دفتر کا کام کرنا نہایت مشکل ہوگیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
عام ویک اینڈ پر صبح شام گھر رہنے کے متمنی ہمارے مجازی خدا کا اب بس نہیں چلتا تھا کہ کسی طرح گھر کا دروازہ توڑ کر باہر نکل جائیں۔ قریب دس سال ہوئے نو سے پانچ (بسا اوقات اس سے بھی زیادہ) کی نوکری کرتے ہوئے ان کے دل میں گھر رہنے کی آرزو تو اٹھتی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ روٹین کی عادت بھی پڑ چکی تھی۔
بسا اوقات ہمیں کہتے کہ تم بہت لکی ہو۔ گھر سے کام کرنے والوں کے تو مزے ہوتے ہیں۔ ہمیں غصہ آتا تو ضرور لیکن دل ہی دل میں پی جاتے۔ دل چاہتا کہ بتاتے گھر سے کام کرنے والوں کے لیے گھر اور جاب میں کوئی تخصیص نہیں رہتی۔ اکثر اوقات ڈیڈ لائن ہر کام کرتے ہوئے کپڑے دھونے کی مشین چلا دیتے۔ ہمارے گھر بکرے کا گوشت بہت شوق سے کھایا جاتا ہے اس لیے یہ تو عام روٹین کا حصہ تھا کہ کچن کے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ کر کام کرتے اور ہلکی آنچ پر پکتے گوشت سے بھی غافل نہ ہوتے۔
بلکہ اندازہ اس قدر پکا ہو چکا تھا کہ ہمیں علم تھا کہ گوشت رپورٹ کے کس حصے تک گلے گا۔ عجیب بات ہے نا؟ بس یہی بات تھی۔ کچھ باتیں عجیب بھی ہوتی ہیں۔
اسی طرح ہمارے کام کے اوقات میں بھی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ صبح سویرے نور تڑکے اٹھ کر کام شروع کر دیتے اور کئی بار تو کھانا کھاتے ہوئے رک جاتے کہ کام کا آئیڈیا ذہن میں آ چکا ہوتا تھا۔ نہ رات کا علم تھا نہ دن کا۔
وبا پھیلنے کے بعد گھروں میں خواتین کی ذمہ داریاں کافی بڑھ گئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
بس یہ پتہ تھا کہ سانس لیے بغیر کولہو کے بیل کی طرح جتے رہنا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو اس میں کہیں بھی تفریح کا کوئی عنصر نظر آئے تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔
خیر قصہ مختصر اب جب کہ میاں صاحب گھر سے کام کر رہے ہیں ان کی بھی بس ہو چکی ہے۔ گھر سے کام کرنے کے مسئلے مسائل اب ان کو بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ اور یہ حال ان کا نہیں تمام مرد حضرات کا ہے جو اس وقت یا تو گھر سے کام کر رہے ہیں یا کرونا وائرس کی وجہ سے گھر بیٹھے ہیں۔
خدا جانے اس موقع پر یہ بات کرنا کس قدر مناسب ہے لیکن خدا لگتی یہی ہے کہ عورتوں کو تو شروع سے گھر بیٹھنے کی عادت تھی۔ موجودہ روٹین نے یقینا مردوں پر زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان میں بہت ساری عورتوں کی زندگی تو یوں بھی قرنطینہ ہی تھی۔
لیکن یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے وہ خواتین جو گھر سے کام کر رہی تھیں ان کی زندگی اب پہلے سے کہیں زیادہ مصروف ہو چکی ہے۔ گھر کے کاموں کی ذمہ داری، بچوں کی دیکھ بھال، اور سب سے بڑھ کر گھر بیٹھے شوہر کی سیوا سب کا ذمہ اب ان ہی پر ہے۔
لاک ڈاؤن کے بعد سے بچوں کی بھی گھر سے ہی آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پہلے تو شاید دفتر میں پھر بھی کوئی سکون کا سانس مل جاتا ہو لیکن اب زندگی محض گھن چکر ہے۔ ایسے میں گھر سے کام کیا جائے یا گھر کا کام کیا جائے یہ سوال خاصا مشکل ہے۔ یا چلیے، سوال تو پھر پوچھا جا سکتا ہے جواب اس قدر پیچیدہ ہے کہ جیسے انسان بھول بھلیوں میں کھو چکا ہو، اور واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو۔
تو صاحب، سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ گھر سے کام کرنا کچھ ایسا آسان نہیں۔ گھر سے کام کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب جی چاہے کمپیوٹر بند کر دیا جائے۔ گھر بیٹھ کر کام کرنا دفتر جانے سے کہیں مشکل ہے کہ اس میں کام اور گھر کی تفریق کرنا خاصا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر آپ مرد ہیں تو ہمیں آپ سے ہمدردی ہے کہ اب آپ کو صبح شام گھر رہنا ہڑ رہا ہے۔ اگر آپ عورت ہیں تو ہمیں آپ سے شدید ہمدردی ہے کہ آپ کی زندگی کے چیلنج صرف گھر بیٹھنے سے کہیں کٹھن ہیں۔ اس پل صراط کو پار کرنا آپ ہی کا دردسر ہے۔
گڈ لک ایوری ون، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں