Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہُوا سُکوں بھی مُیسّر تو اضطراب رہا‘

چھینک اور بخار سے بھی آپ وسوسے میں پڑ جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
اقوام متحدہ نے کورونا وائرس کو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے لیے بدترین بحران قرار دیا ہے۔ اس وائرس سے خوف کی جو فضا پیدا ہوئی اس نے سماجی روابط اور رویوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہمارے سماج میں کسی کے جنازے میں شرکت کو بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے والے سے تعلقِ خاطر کے عملی اظہار کی یہ آخری صورت ہوتی ہے، اس میں شرکت کے واسطے دور دراز کے سفر کی صعوبت بھی برادشت کی جاتی ہے اور کسی عزیز کی شرکت یقینی بنانے کی خاطر تدفین کے عمل میں تاخیر بھی گوارا کر لی جاتی ہے۔
کورونا وائرس نے اس اہم معاشرتی فریضے کی ادائیگی میں رخنہ ڈالا ہے۔ جنازے میں عدم شرکت کو عام حالات میں ناپسندیدہ خیال کیا جاتا ہے لیکن کورونا نے اسے روا بنا دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے ایک انگریزی اخبار کی خبر تھی کہ اسلام آباد میں کورونا وائرس کے مریض کی ساس کے جنازے میں شریک افراد کو بھی ٹیسٹ کروانے پڑے۔ کورونا وائرس سے جان کی بازی ہار جانے والوں کی تدفین بھی خصوصی انتظامات کے تحت ہو رہی ہے۔
ملتان میں کورونا وائرس سے مرنے والے کی نماز جنازہ چند ریسکیو اہل کاروں کو پڑھتے دیکھ کر بھی دل ملول سا ہو گیا۔ کراچی میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کے لیے الگ قبرستان بنائے جانے کی خبر بھی سامنے آئی ہے۔

کورونا وائرس نے جنازے میں شرکت کے اہم معاشرتی فریضے کی ادائیگی میں رخنہ ڈالا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عموماً گھریلو ملازمین کی غیر حاضری پر گھر کا نظم بگڑ جاتا ہے، پیشگی اطلاع کے بغیر چھٹی پر انہیں سخت وارننگ ملتی ہے لیکن اب انہیں بھی خوشی خوشی غیر معینہ مدت کے لیے چھٹی دے کر خواتین خود گھر کے کاموں میں جٹ گئی ہیں۔ اس ’سماجی فاصلے‘ میں ہی انہیں اہل خانہ اور ملازمین کی عافیت  نظر آتی ہے۔
لوگوں کی انٹرنیٹ تک رسائی کے نتیجے میں اخبارات کی سرکولیشن میں کمی آئی لیکن اخبارات کے ایسے قاری اب بھی موجود ہیں جن کی صبح اخبار پڑھے بغیر نہیں ہوتی لیکن اب ایسے پرُشوق قاری بھی اخبار کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں کہ یہ کئی ہاتھوں سے گزر کر ان کی دہلیز تک پہنچا ہے۔
اس صورت حال میں ہاکر پریشان ہیں تو اخباری مالکان بھی فکر مند، وہ اشتہارات کے ذریعے قارئین کو یقین دلا رہے ہیں کہ اخبارات کو چھونے سے کورونا وائرس منتقل نہیں ہوتا۔ محلوں میں حجام کی دکان ایک سوشل کلب کا درجہ رکھتی ہے۔

پاک ٹی ہاﺅس اور نیرنگ گیلری بھی مقفل ہیں۔ فائل فوٹو

دنیا جہاں کے مسئلے وہاں زیر بحث آتے ہیں اور محلے کی اہم خبریں بھی ادھر ہی ’بریک ‘ ہوتی ہیں۔ لیکن کورونا کے خوف سے لوگ حجاموں سے کنی کترا رہے ہیں اور بال اور شیو بنوانے سے گریزاں ہیں۔ پارکوں میں صبح کی سیر صحت کے لیے ضروری ہے، جس کے بعد یار لوگ وہاں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔
 ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔ لاہور کے ماڈل ٹاﺅن پارک میں صبح کی سیر کرنا سالہا سال سے ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ کا معمول تھا جس کے بعد وہاں ان کے گرد منڈلی جمتی اوربات چیت کا دور چلتا۔ تارڑ صاحب کے کسی پرستار کو ملنا ہوتا تو وہ بھی اُدھر کا رخ کرتا۔
تین دن پہلے ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ سیر کی روٹین تو متاثر ہوئی سو ہوئی لوگوں سے مکالمے کی صورت بھی ختم ہوگئی ہے۔

اقوام متحدہ نے کورونا وائرس کو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے لیے بدترین بحران قرار دیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور میں پرانی کتابوں کے بازار اور نئی کتابوں کی دکانیں بند ہیں۔ پاک ٹی ہاﺅس اور نیرنگ گیلری بھی مقفل ہیں۔ لاہور میں کتابوں کی معروف دکان ’ریڈنگز‘ پر بھی تالا پڑا ہے، جس کے کیفے میں ہم خیال اور مختلف الخیال لوگ بیٹھ کر مکالمہ کرتے تھے۔
یہی حال شہر کے دوسرے ادبی و ثقافتی مراکز کا ہے۔ گویا صورت حال جون ایلیا کے اس مصرعے کے مصداق ہوگئی ہے ’اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘ْ۔
پرانی یادوں کو تشکیل پانے میں بہت عرصہ لگتا تھا لیکن اب کہ یہ عجب معاملہ ہوا کہ دو تین ہفتوں میں ہی ہم ان ٹھیوں کو یاد کررہے ہیں جہاں مل بیٹھ کراس آپا دھاپی کے زمانے میں بھی دلوں کو قرار آجاتا۔ اب تو کسی پیارے کی کھانسی، چھینک اور بخار سے بھی آپ وسوسے میں پڑ جاتے ہیں اور اس سے کنارہ  کرنے میں عافیت جانتے ہیں۔

گھریلو ملازمین کو بھی غیر معینہ مدت تک کے لیے چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

سوشل میڈیا جس کے بارے میں یہ شکایت عام تھی کہ اس نے احساس مروت کو کچل دیا ہے وہی اس وقت دوسرے کی خیریت جاننے کا ذریعہ ہے لیکن پہلے کے مقابلے میں اس ربطِ تازہ میں بات رسمی نہیں رہی اور خلوص اور جذبے کی گرمی اب اس میں شامل ہوگئی ہے۔
 وہ عزیز رشتے دار، دوست احباب جو ایک دوسرے کو باقاعدگی سے ملتے تھے اور آپس میں محبتیں بانٹتے تھے، ان کی محبت بھی اب ایک دوسرے سے دور رہنے کا تقاضا کر رہی ہے۔ ایک اگر ملنے کی خواہش ظاہر کرے تو دوسرا منع کردیتا ہے لیکن اس نہ کو منفی کے بجائے مثبت معنوں میں لیا جا رہا ہے۔ ہم جو فرصت کے متلاشی تھے، چھٹیوں کے خواہاں تھے، اب پڑے سوچ رہے ہیں کہ یہ جو فراواں وقت میسر آیا ہے اس کا کیا مصرف ہو۔ اس فرصت کے جلو میں آنے والے خوف نے زندگی کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔ بقول  احمد مشتاق: ہُوا سُکوں بھی مُیسّر تو اضطراب رہا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: