Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاک ڈاؤن کے دوران رمضان کا آغاز

فلسطین کی ایک مارکیٹ میں خواتین رمضان کی خریداری میں مصروف ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سخت اور غیر معمولی لاک ڈاؤن کے دوران دنیا کے کئی ممالک میں رمضان کے مقدس مہینے کا جمعے سے آغاز ہو گیا ہے۔
دنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے اور حکام نے باجماعت نمازوں اور اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رمضان کی آمد کے ساتھ چند ممالک میں جاری لاک ڈاؤن میں نرمی نے وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
اس سال رمضان کا مہینہ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بہت ساروں کے لیے روایتی گھما گھمی نہیں لایا۔ کیونکہ رمضان کے دوران مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے اور دوستوں سے ملنے اور بڑے پیمانے پر افطار پارٹیوں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
ڈھاکہ میں سرکاری حکام نے صدیوں پرانی ایک ایسی مارکیٹ کو سیل کر دیا ہے جہاں رمضان کے روایتی کھانے بکتے تھے۔
مقامی پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ مارکیٹ کی400  سالہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا جب یہاں افطاری کی چیزیں فروخت نہیں ہوں گی۔
کورونا کی وجہ سے عائد پابندیوں نے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا میں بھی رمضان کی روایتی گھما گھمی کو ماند کر دیا ہے۔ انڈونیشیا میں مذہبی تنظیموں نے لوگوں سے گھروں کے اندر رہنے کی اپیل کی ہے۔
.انڈونیشیا میں ایک گھریلو خاتون فطریہ فیملا کا کہنا تھا کہ ’رمضان بہت مختلف ہے۔ ۔یہ محض ایک تہوار نہیں ہے۔‘

کراچی کی ایک مسجد میں فاصلہ قائم رکھ کر مغرب کی نماز کی ادائیگی کا منظر (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’مجھے بہت افسوس ہے کہ میں مسجد نہیں جا سکتی مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اب یہ ایک مختلف دنیا ہے۔‘
تاہم ایشیا میں جہاں ایک ارب سے زائد مسلمان آباد ہیں، کئی ایک مذہبی رہنماؤں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات پر مذہبی اجتماعات پر پابندیوں کو مسترد کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں بنیاد پرست حفاظت الاسلام گروپ نے حکومت کی جانب سے لوگوں کی ملک بھر میں موجود تین لاکھ مساجد تک رسائی محدود کرنے کی پالیسی پر تنقید کی ہے۔
حفاظت الاسلام کے ایک عہدیدار مجیب الرحمٰن نے اے ایف پی کو بتایا کہ مساجد میں باجماعت نماز میں نمازیوں کی تعداد کو محدود کرنا اسلام کے خلاف ہے۔
’ایک صحت مند مسلمان پر فرض ہے کہ وہ مسجد میں نماز باجماعت ادا کرے۔ اگر ہم اہتمام کے ساتھ نماز ادا کریں گے تو اللہ ہمیں کورونا سے بچائے گا۔‘

لاک ڈاؤن کی وجہ سے نئی دہلی میں واقع شاہی مسجد کا دروازہ بند ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیونیشا کے قدامت پسند اکثریت والے صوبے آچے میں میں اسلامی تنظیم نے گھر پر رہنے کی حکومتی احکامات کو رد کیا ہے۔
آچے صوبے کے دارالحکومت بندہ آچے کی مرکزی مسجد میں جمعرات کی رات کو کئی ہزار مسلمانوں نے تروایح کی نماز ادا کی تاہم مجمع گذشتہ سال کے مقابلے میں چھوٹا تھا۔
مسجد کے نمازیوں میں سے ایک فطرہ رسکیا نے بتایا کہ انہیں کوئی خوف نہیں کیونکہ انہوں نے فیس ماسک پہنا ہوا ہے اور ضروری فاصلہ بھی برقرار رکھا۔

انڈونیشیا کی ایک مسجد میں دو خوتین قران کی تلاوت میں مصروف ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

بڑے مذہبی اجتماعات سے کورونا کے پھیلاؤ کا خطرہ حالیہ دنوں میں ملائیشیا، پاکستان اور انڈیا میں ہونے والے مذہبی اجتماعات میں وائرس کے مریضوں کے بعد ابھر کر سامنے آیا ہے۔
اگرچہ خطے میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتیں یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں کم ہیں تاہم ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ کہیں ان ممالک کے صحت کے نظام کو ناکارہ نہ بنا دے۔
دوسری جانب عمالی ادارہ صحت نے بھی اپیل کی ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر رمضان کی کچھ سرگرمیوں کو محدود کیا جائے۔
ملائیشیا کے قدامت پسند آبادی والے صوبے کیلانٹن کے ایک اہم مذہبی رہنما محمد شکری محمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس رمضان میں باجماعت نماز اور افطار کی تقریبات سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’یہ میری زندگی میں پہلی دفعہ ہے کہ میں نماز کے لیے مسجد نہیں جا سکوں گا۔‘

انڈونیشیا میں ایک شخص رمضان کی خاص سوعات کھجور فروخت کر رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو سماجی دوری کے اصول کو قبول اور اس کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی زندگیوں کی حفاظت کر سکیں۔
دوسری جانب رمضان کی روایتی چیزیں فروخت کرنے کے لیے مشہور بازاروں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان کے بجائے ملائیشیا میں لوگ نام نہاد ’ای بازار‘ سے چیزیں آرڈر کر سکتے ہیں۔
مسلم ممالک میں اس دفعہ بعض لوگ روزہ اس خوف سے نہیں رکھ رہے ہیں کہ کہیں اس سے ان کا ایمیون سسٹم کمزور نہ ہو۔
تاہم انڈونیشا کے ایک بینک میں کام کرنے والی خاتون امالیہ نور استگفاریں کا کہنا ہے کہ روزہ نہ رکھنے سے گناہ ہوگا کیونکہ یہ فرض ہے۔
’اس لیے میں اپنے مدافعتی نظام کو بہتر کرنے کے لیے دوسری چیزیں کروں گی۔‘

ملائیشیا کی ایک سپر مارکیٹ میں رمضان کی روایتی اشیا کی خریداری کا منظر (فوٹو: اے ایف پی)

انڈونیشیا نے اس خوف سے کہ کہیں رمضان کے اختتام پر عید کے لیے ہزاروں لوگ شہروں سے اپنے آبائی گاؤں اور قصبوں کا رخ کریں گے جس سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے، لوگوں کے گاؤں اور دیہات جانے پر پابندنی عائد کی ہے۔
جکارتہ کے رہائشی ایرک فیبریان کا کہنا ہے کہ وہ گاؤں میں موجود اپنے والدین سے عید پر ملتے تھے۔ تاہم اب ٹیکنالوجی کی وجہ سے میں اپنے والدین کو رمضان کے دوران بھی ویڈیو کال کر سکتا ہوں اور ان کی صحت پر نظر رکھتا ہوں۔

شیئر: